گہرے سمندر میں بھورے ناک والی سپوک فش کے بڑے سر میں چار آنکھیں ہیں جو باہر کو نکلی ہیں۔ دو اوپر کی طرف دیکھتی ہیں جن میں اوپر سے آنے والی مدہم روشنی کو دیکھنے کیلئے نمایاں عدسے ہیں۔ دو نیچے کی طرف جس میں آئینے ہیں جو کہ حیاتیاتی روشنی کو فوکس کرتے ہیں۔ کاک آئیڈ سکوئیڈ یہی چیز دو آنکھوں سے کرتا ہے۔ ایک بڑی باہر نکلی آنکھ اوپر کی طرف جبکہ ایک چھوٹی اور اندر دھنسی ہوئی نیچے کی طرف۔ بیرل آئی فش کی آنکھ اس کے سر کے اندر ہی ہے اور ٹیلی سکوپ نما ہے۔ اس کا سر شفاف ہے اور جسم سیاہ۔ اس کا سر آنکھ کے اوپر حفاظتی گنبد کے طور پر ہے۔
آنکھ کے سائز کے ساتھ دو عوامل ہیں۔ بڑی آنکھ زیادہ روشنی اکٹھی کر سکتی ہے، اس لئے زیادہ حساس ہے۔ جبکہ اس کو بنانے اور برقرار رکھنے کے لئے زیادہ توانائی چاہیے۔ آنکھ کا سائز توانائی کے خرچ اور حساسیت کے درمیان کا توازن ہے۔
زندگی کو توانائی چاہیے اور گہرے سمندر میں توانائی کم مقدار میں میسر ہے۔ زندگی کے ایندھن کا تقریبا تمام حصہ سورج سے آتا ہے۔ سمندر میں ساڑھے چھ سو فٹ تک فوٹوسنتھیسس ہو سکتا ہے۔ کچھ معمولی سی توانائی زیرِ سمندر آتش فشانی دہانوں سے ملتی ہے جس سے کیمیوسنتھیسس کیا جا سکتا ہے۔ تاریک گہرائیوں تک توانائی کا بڑا حصہ بھی سورج سے ہی آتا ہے۔
پلانکٹن سطح پر پائی جانے والی نباتات ہیں۔ یہ مرنے کے بعد گہرائیوں میں غرق ہو جاتے ہیں یا انہیں بحری جاندار خوراک بنا لیتے ہیں۔ یہ بھی جب مرتے ہیں تو گہرے پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور ان سے بیش قیمت غذا بنتی ہے۔ گہرے پانیوں میں بسنے والوں کے لئے یہ اترنے والا من و سلوی ہے۔ لیکن یہ لامحدود نہیں اور اس کی ہونی والی بارش درمیان میں اچک لی جاتی ہے۔ موسلادھار بارش نیچے پہنچتے پہنچتے بوندا باندی رہ جاتی ہے۔ اور جس طرح ہم نیچے جاتے ہیں، جانداروں کی تعداد اور سائز کم ہو جاتا ہے۔
جو چیز ایک وقت میں عجیب سمجھی جاتی تھی، وہ یہ کہ اگرچہ جانداروں کا سائز کم ہوتا جاتا ہے لیکن آنکھ کے مقابلتا سائز میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ اس وقت تک جب تاریکی کا کنارہ نہ آ جائے۔ اس کے بعد آنکھ نیچے کی طرف چلی جاتی ہے اور پھر اس کا سائز چھوٹا ہونے لگتا ہے۔ یہ کیوں؟
اہم بات یہ ہے کہ بصارت کا مقصد روشنی ڈیٹکٹ کرنا نہیٰں بلکہ روشنی کے فرق (contrast) کا پتا لگانا ہے۔ دنیا کے بارے میں انفارمیشن اس سے ملتی ہے اور اشیا کو پہچانا جا سکتا ہے۔ جب اوپر کی جانب کسی شے کا ہیولا اس کے پس منظر سے الگ کرنا ہے تو بڑی آنکھ درکار ہے لیکن جب نیچے کی طرف روشن جاندار کو دیکھنا ہے تو یہاں پر یہ جاندار اپنے اردگرد کے ماحول کے مقابلے میں بہت زیادہ روشن ہے، اسلئے بڑی آنکھ کا خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔
ہم ابھی آنکھ کے ڈیزائن کا یہ سوال ابھی مکمل طور پر نہیں سمجھے کیونکہ ایک اور ٹرانزیشن زون ہے۔ سمندر کی تہہ پر رہنے والوں کے لئے ایک بار آنکھ کا یہ تناسب بڑھ جاتا ہے جبکہ یہاں پر حیاتیاتی روشنی زیادہ نہیں۔ جانداروں کے ان ڈیزائن کی درست سمجھ ان کے اپنے ماحول میں ان کا خاموش مشاہدہ کرنے سے بہتر ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ، 17 جنوری، 2025
زندہ روشنیاں (16) ۔ سمندر میں آنکھیں
Tags
Below the Edge of Darkness#
Share This
About Wahara Umbakar
Below the Edge of Darkness
لیبلز:
Below the Edge of Darkness
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں