باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 17 جنوری، 2025

زندہ روشنیاں (18) ۔ روشن امید کی دنیا


سمندر زمین پر کاربن سائیکل کو توازن میں رکھنے کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اور زمینی زندگی کے لئے یہ ایک اہم ترین چکر ہے۔ خاص طور پر پچھلی دو صدیوں میں ایندھن کے جلنے سے بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہوا میں اخراج ہو رہا ہے۔ یہ قدیم وقتوں اور کروڑوں سالوں سے جمع ہونے والے کاربن کا اخراج ہے۔ اس عمل کے دوران سمندروں میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ کیونکہ جب کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی میں جذب ہوتی ہے تو کاربونک ایسڈ ب نتا ہے۔ ہم پانی کے ان تیس کروڑ مکعب میل کی کیمسٹری متاثر کر رہے ہیں۔ اور اس کا براہِ راست اثر خوراک کی زنجیر پر ہے۔ کورل، شیل فش جیسی اہم انواع کے لئے اپنے خول اور ڈھانچے بنانا مشکل ہو رہا ہے۔ سمندر اضافی حرارت کو بھی جذب کر رہے ہیں کیونکہ میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گرین ہاؤس گیسیں ہوا میں بڑھ رہی ہیں جو کہ زمین پر حرارت کو قید کر لیتی ہیں۔ اور ان سب کے اثرات پریشان کن ہیں۔
گرم ہوتا پانی اور پگھلتی برف عظیم دریاؤں کا بہاؤ بھی بدل رہے ہیں۔ اور ان کے زمین کے موسم پر گہرے اثرات ہیں۔ خشک سالی میں اضافہ، سیلاب، طوفان، جنگل میں آتشزدگی، فصلوں کی ناکامی، ماہی گیروں کی مشکلات سمیت اس کا انسانی تمدن پر بڑا اثر ہے۔
یہ فہرست طویل ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی، کیمیکل کی آلودگی، غذا میں آلودگی، جانوروں کی جگہوں کا خاتمہ، انواع کا ناپید ہونا، سمندر میں کورل ریف کا نقصان، برف کے گلیشئیر ختم ہونا اور بہت کچھ ۔۔۔ یہ ہم سب کے مشترکہ مسائل ہیں۔ ان گنت کتابیں، سائنسی مقالے، میگزین کے مضامین، سوشل میڈیا پوسٹ اس سب کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔ لیکن اس پر ردِعمل نہیں آتا۔ اور اس کی وجوہات نفسیاتی ہیں۔
ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ جب بار بار مایوسی کی تصاویر دکھائی جائیں تو ردعمل یہ ہوتا ہے کہ آنکھ اور کان بند کر لئے جائیں اور جو ہوتا ہے، اسے ہونے دیا جائے۔ ڈراؤنی تصاویر عمل کے لئے مضر ہیں۔
جو لوگ ماحول کی پرواہ کرتے ہیں، انہیں نئے طریقے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہم مہم جو نوع ہیں۔ مہم جوئی کے لئے امید اور رجائیت ضروری ہیں۔ ہم بچپن سے ہی ان کہانیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں جہاں چھپے ہوئے خزانے ہوں، نئی دنیاؤں کے راستے ملیں۔ پرسرار جگہیں ہمیں متوجہ کرتی ہیں۔ خفیہ گیٹ کے پیچھے عقل حیران کر دینے والے باغ ۔۔۔ اور بہت کم لوگ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ہماری دنیا ایسی ہی ہے۔ سمندروں کی گہرائیاں پوشیدہ راز رکھتی ہیں۔ ایسے سوالات کے جواب رکھتی ہیں جو ہم نے سوچے بھی نہیں۔ اور یہ ہمیں خود اپنے سیارے کی طرف متوجہ کرنے کا طریقہ ہے۔ اور اس توجہ کے بغیر آپ پرواہ نہیں کر سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آتشبازی کا نظارہ آرٹ کا ایک غیرمعمولی شکل ہے۔ سیاہ رات کے پس منظر کے اوپر رنگوں کے چھینٹے۔ اور یہ وقتی ہوتا ہے۔ ایک نظارہ ہمیں مبہوت کر دیتا ہے۔ جس طرح آتشبازی روشنی کے پینٹنگ ہے، ویسے ہی سمندر کے نیچے زندہ روشنیاں یہی کام کرتی ہیں۔ یہ مصنوعی نہیں بلکہ سرد کیمیائی روشنی ہے۔ اور انہیں پیدا کرنے والے قسم قسم کے جاندار ہیں۔ اور ان کے اجسام پر قسم قسم کے اعضا ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔ نیلی مائع روشنی پھینکنے والے نوزل، انتہائی پیچیدہ جواہرات جیسے آنکھ نما عضو جو کہ روشنی موصول کرنے کے بجائے خارج کرتے ہیں۔ بازو جو کہ کسی فکشن فلموں کی مخلوق لگتے ہیں۔۔۔ ایسے جاندار بھی جو کہ اس قدر چھوٹے یا شفاف ہیں کہ دکھائی نہیں دیتے۔ اور یہ سب کرنے میں ان کی بہت سی توانائی لگتی ہے۔
پچھلی ایک صدی میں ہم نے سمندر کو بدل دیا ہے۔ بڑی مچھلیاں ختم کر دی ہیں۔ اس قدر بڑی جال استعمال کر کے مچھلیاں پکڑتے ہیں جن میں دو جمبو طیارے آ جائیں۔ ٹرالنگ سے ہم نے سمندر کی تہہ کے باغ اجاڑ کر کھنڈر کر دئے ہیں۔ ان جگہوں کو ہم اپنے پلاسٹک، کچرے اور زہر سے بھر رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ۲۰۵۰ تک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہو گا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس کی پرسرار جگہوں کا علم ہی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب امید ختم ہو جائے تو عمل بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اور اس کیلئے بچپن کے تجسس کا وہ جذبہ چاہیے جو کہ ہماری بقا کے لئے بھی ضروری ہے۔  
اس سیارے پر ہمارا طویل عرصے تک وجود اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اس زندہ دنیا کے ساتھ کس طرح سے کنکشن بنا سکتے ہیں اور ہم آہنگی سے رہ سکتے ہیں۔ اور ہمارا تجسس اور مہم جوئی کا جذبہ اس میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سمندر کی گہرائیوں میں زندہ روشنیوں کی یہ دنیا وہ آرٹ ہے جو کہ ہمیں اس جذبے کو متحرک کر سکتا ہے جو کہ مستقبل کی امید کا ایندھن ہو سکتا ہے۔        
(ختم شد) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں