باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 13 جنوری، 2025

زندہ روشنیاں (2) ۔ آنکھ


الجی کی آنکھ جو انسانی بال کی موتائی کے دسویں حصے کے قطر کی ہے سے لے کر جائنٹ سکوئیڈ کی آنکھ جو کہ آپ کے سر کے سائز کی ہے۔ سمندر کی سطح پر خوردبینی جاندار اور گہرے سمندر میں رہنے والے بڑے جاندار کی زندگیوں میں موازنہ کریں تو آنکھ کے سائز کے فرق کی ُتک بنتی ہے۔ بڑی آنکھ زیادہ فوٹون اکٹھے کر سکتی ہے اور کم روشن ماحول میں رہنے کے لئے زیادہ مفید ہے۔ لیکن فطرت میں بہت اقسام کی آنکھیں ہیں۔ اور ہر آنکھ کا تعلق اس کے ماحول سے ہے۔
کاک آئی سکوئیڈ کی بائیں آنکھ بڑی اور باہر کو نکلی ہے۔ یہ اوپر کی طرف دیکھتی ہے۔ جبکہ دائیں آنکھ اندر گھسی ہوئی چھوٹی آنکھ ہے جو گہرائی کی طرف دیکھتی ہے۔ یہ بے تکا لگتا ہے لیکن پھر اس کے معالعے سے آپ کو پتا لگتا ہے کہ اس کے روشن ہو جانے والے اعضاء چھوٹی آنکھ کا احاطہ کرتے ہیں۔ بڑی آنکھ اوپر کی طرف ہیولے دیکھ کر شکار ڈھونڈتی ہے جبکہ نیچے والی آنکھ فلیش لائٹ کی مدد سے قریب کے شکاروں کو۔ بصری ایکولوجی کے لئے ماحول کے علاوہ روشنی کی ہئیت اور آنکھ کے فنکشن کو سمجھنا پڑتا ہے۔
جب ہم مختلف جانوروں کی بصارت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا موازنہ اپنے آپ سے کرتے ہیں کہ ہم خود کیسے دیکھتے ہیں۔ گہرے سمندر میں یہ ایک چیلنج ہے۔ ہماری آنکھ بہت کم روشنی میں گہرے سمندر کے ماحول کا مشاہدہ نہیں کر سکتی اور وہاں پر مصنوعی روشنی لے جاتے ہیں۔ یہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ یہاں کے باسیوں کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ ویسے، جیسے ہم سورج میں براہِ راست دیکھ رہے ہوں۔ اور یہ وجہ ہے کہ گہرے سمندر کے جانوروں کو ڈسٹرب کئے بغیر ان کا مشاہدہ کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ کئی بار ان کی زندگی کوسمجھنے کا بہترین طریقہ ان کی آنکھ کو سمجھنا ہے۔
آنکھ کے بارے میں اہم سوالات یہ ہیں کہ “یہ کونسی انفارمیشن قبول کرتی ہیں اور کونسی انفارمیشن کو نہیں؟”۔ تمام آنکھیں فلٹر کا کام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس الٹراوائلٹ انفارمیشن کے لئے ریسپٹر نہیں۔ اگر یہاں سے آنے والی انفارمیشن زندگی کے لئے زیادہ مفید نہیں تو ایسے ریسپٹر میں توانائی اور وقت بے کار ہے۔
آنکھوں کے بارے میں سوچنا کہ یہ کیا کرتی ہیں اور کیا نہیں۔ یہ آسان مشق نہیں۔ ہم دنیا کی بہت زیادہ چیزوں سے نابینا ہیں ۔۔۔ کئی بار بائیولوجی کی حدود کی وجہ سے لیکن زیادہ تر اس وجہ سے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ دیکھنا کیسے ہے۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اندھیرے اور اجالے کے درمیان بہت فرق سمجھا جاتا ہے۔ یہ فرق روشنی کا ہے۔ ہماری بہت سی کہانیوں نے اندھیرا برائی کا جبکہ اجالا اچھائی کا استعارہ ہوتا ہے۔ اجالے اور اندھیرے میں تمیز کر سکنا بصارت کا کام ہے۔ اور بصارت روشنی سے دنیا کے معنی سمجھ لینے کی صلاحیت ہے۔
بصارت کے تین حصے ہیں۔ پہلا آنکھ میں ہے۔ کسی کیمرے کی طرح دنیا کے منظر کو فوکس کر کے تصویرکشی کی جاتی ہے۔ آنکھ میں ریٹینا ہے جس میں ساڑھے بارہ کروڑ خلیات ہیں جو روشنی سے حساس ہیں۔ یہ فوٹوریسپٹر ہیں۔
دوسرا حصہ روشنی کی توانائی کو برقی سگنل میں تبدیل کرتا ہے جو کہ اعصابی خلیات پر سفر کرتے ہوئے دماغ تک پہنچتے ہیں۔
تیسرے حصے میں دماغ ان برقی سگنلز کو وصول کر کے ذہنی تصویر بناتا ہے۔ یہ بصارت کا مقصد ہے۔ مادی دنیا اور ذہن کے درمیان رابطہ کروانا۔ اشیاء کو پہچاننا ہے۔ فاصلے کا اندازہ لگانا ہے۔ حرکت کا حساب کرنا ہے۔
اور اس وقت بھی جب دیکھنے والا خود حرکت میں ہو۔ اگر آپ اپنی گردن ٹیڑھی کر کے دنیا کو دیکھیں تو ایسا نہیں کہ دنیا ٹیڑھی نظر آنے لگتی ہے۔ یہ چھوٹی سی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ دماغ میں کس قدر زبردست طریقے سے دنیا کی تصویر بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید آپ نے بہت سے دلچسپ بصری سراب دیکھے ہوں۔ یہ ہمیں perception کے بارے میں بتاتے ہیں۔ کیونکہ ہماری دلچسپی “اصل” میں نہیں بلکہ “مفید” میں ہے۔
اس وجہ سے ہم contrast کو زیادہ نمایاں دیکھتے ہیں۔ یا پھر نیورون کی سطح پر ہمارا bias حرکت کی طرف ہے۔ (اگر کسی کا سر شکنجے میں باندھ دیا جائے اور اس کی آنکھ کے پٹھوں کو سن کر دیا جائے اور اس کے سامنے کوئی حرکت نہ ہو رہی ہو تو پھر اسے کچھ بھی نظر نہیں آئے گا)۔  
دنیا تین ڈائمنشن میں ہے جبکہ آنکھ کے ریٹینا پر بننے والا عکس دو ڈائمنشن میں اور الٹا ہوتا ہے۔ اس عکس کی مدد سے دنیا کے ذہنی تصویر بنانے میں حیران کن حد تک ابہام سے معاملہ کرنا ہوتا ہے۔ دماغ بہت کم ان پٹ سے مسلسل انفارمیشن میں اپنا حصہ خود ڈال رہا ہوتا ہے۔ یہ توقعات کی مدد سے کیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں