باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 13 جنوری، 2025

زندہ روشنیاں (3) ۔ بصارت


دماغ خلیات کا بہت متاثر کن مجموعہ ہے۔ جسے ہم “reality” سمجھتے ہیں، یہ دماغ کی تعمیر کردہ ہے۔ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کو دنیا کی درست تشریح دکھا رہا ہے تو ذرا اس پر غور کریں۔
برقی سگنل جو کہ ہمارے دماغ تک مختلف حسیات سے پہنچتے ہیں، ان کی رفتار یکساں نہیں۔ یہ اکٹھے نہیں پہنچتے۔ لیکن دماغ ان کو ایڈجسٹ کر لیتا ہے کہ ہمیں فرق محسوس نہیں ہو پاتا۔ اگر آپ کسی کو اپنی ناک پر چٹکی کاٹتے دیکھیں یا پاؤں پر ۔۔۔ آپ کو ایسا لگے گا کہ چٹکی کاٹتے دیکھنا اور اس کا محسوس ہونا ایک ہی وقت پر ہوا ہے۔ حالانکہ ناک کے مقابلے میں پاؤں سے دماغ تک سگنل پہنچنے میں اضافی تیس ملی سیکنڈ لگتے ہیں۔ اور صرف اس فاصلے کا فرق ہی نہیں۔ پراسسنگ کا فرق بھی ہے۔ دماغ کو دیکھنے کے سگنل کو پراسس کرتے ہوئے سننے کے سگنل کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ وقت لگتا ہے۔ (دیکھنے کے لئے پچاس ملی سیکنڈ اور سننے کے لئے دس)۔ آواز کی رفتار روشنی کے مقابلے میں 880,000 گنا زیادہ ہے۔ اس فرق کو مدنظر رکھا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لئے تیس سے لے کر پچاس فٹ کے فاصلے پر horizon of simultaneity ہے۔ یعنی یہ وہ علاقہ ہے جب سنائی دینا اور دکھائی دینا اکٹھا ہو گا۔ اس سے قریب کے فاصلے پر سنائی جلد دے گا، دکھائی بعد میں۔ جب کہ اس سے دور ہو تو اس سے برعکس۔ لیکن جب آپ کسی کو تالی بجاتے سنیں تو خواہ وہ آپ کے ساتھ ہو، یا پچاس فٹ کے فاصلے پر، یا اس سے دور۔ آپ کو آواز اور تصویر اکھٹے ہی لگتے ہیں۔ آپ اس فرق میں تمیز نہیں کر پاتے۔
نکتہ یہ ہے کہ دماغ حسیاتی ان پٹ کا سادہ ریسیور نہیں ہے۔ حسیات اور دماغ کے مکالمے کے نتیجے میں ہمیں دنیا کا experience ملتا ہے۔ اس میں ڈیٹا کو یکجا کرنا، حساب کرنا اور مستقبل کی پیشگوئی کرنا بھی شامل ہے۔ دیکھنا، سونگھنا، چکھنا، محسوس کرنا اور سننا ۔۔۔ صرف ہماری ضرورت کے مطابق ہے۔ بہت کچھ مخفی ہے لیکن ہماری قوتِ اختراع ہمیں وہ صلاحیت دیتی ہے کہ ہم اس کو بے پردہ کر لیں جو ہماری حسیات سے مخفی ہے۔ لیکن اس کے لئے ہمیں “دیکھنے” کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دنیا سے اپنی حسیات کی مدد سے رابطہ کرتے ہیں لیکن “دیکھنے” کا یہی واحد طریقہ نہیں ہے۔ میں برسوں سے اپنے باغ میں ایک درخت روز دیکھتا ہوں۔ اس کی شکل، شاخوں کی جگہ مجھے یاد ہے۔ اس کی چھال کا ہاتھوں پر احساس، اس کی مٹی کی سوندھی خوشبو جہاں پر اس کی جڑیں پھیلیں ہیں ۔۔۔ یہ سب میری یاد کا حصہ ہے۔ وقت کے ساتھ ہم اپنی یاد پر نئی تہوں کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ کیوں؟ کیا؟ کیسے؟ ۔۔۔ یہ ان نئی تہوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ درخت پانی اور غذا کو جڑوں سے پتوں تک کیسے پہنچتا ہے۔ شوگر پتوں سے جڑوں تک کیسے آتے ہیں۔ اس کی کھردری چھال میں اسپرین کی طرح کے مرکبات کیسے اور کیوں ہوتے ہیں ۔۔۔۔ یہ سب اہم تہیں “درخت” کی یاد اور سمجھ کو دوچند کرتی ہیں۔
یہ سمجھنا آسان ہے کہ درخت ایک زندہ شے ہے جسے نیچر کی علامت کہا جاتا ہے۔ شاعر اور ادیب اس بارے میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ کیونکہ ہمارا ان کے ساتھ اپنی روزمرہ کی زندگی میں واسطہ رہتا ہے۔ لیکن ہمارا نیچر کے ساتھ تعلق بہت بہت وسیع ہے اور ہم اس پر خود اثر بھی ڈالتے ہیں۔
اور ہم جس سیارے کے باسی ہیں، اس کی سطح کا بڑا حصہ سمندر ہیں۔ لیکن ان کے بارے میں ہماری سمجھ اتنی اچھی نہیں ہے۔ یہ زندہ، سانس لیتی پانی کی دنیا ہے جس میں ایسی مخلوقات موجود ہیں جو ہمارے لئے حیران کن طور پر اجنبی ہیں۔
ہم دنیا کو دیکھنے کا انتخاب کیسے کرتے ہیں، یہ ہمارے اپنے وجود کو شکل دیتا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم دنیا کو ویسے دیکھتے ہیں جیسی یہ ہے لیکن یہ درست نہیں۔ ہم دنیا کو ویسے دیکھتے ہیں جیسے دیکھنا ہمارے لئے مفید ہے۔ لیکن اب یہ بھی سچ نہیں رہا۔ ہماری دنیا اس قدر تیزی سے بدل رہی ہے کہ ہمیں اس بڑی تصویر کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کیسے ممکن ہوتی ہے۔ نیچر کو سمجھنے کے لئے صرف درخت کی گہر سمجھ ہی کافی نہیں۔
سمندر اور اس کا حیرت کدہ ہمیں اس کی زیادہ بڑی تصویر دیتا ہے۔ اور اگر ہم صرف اس کی سطح تک دیکھیں تو اس سے نابینا رہ جائیں گے کہ اس کی چمکتی زندگی کا اس کی گہرائیوں میں حیرت انگیز جال ہے جو کہ خود ہمارے اپنے وجود کو ممکن کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
یہ سمندر کی تاریکی کے کنارے تلے کی روشن زندگی ہے۔
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں