باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 15 جنوری، 2025

زندہ روشنیاں (4) ۔ حیات کا نور


زندہ اشیا کی روشنی (bioluminescence) دیکھنا خوشگوار تجربہ ہے۔ موسمِ گرما میں اڑتے جگنو کو چمکتے دیکھنا اور ان کا پیچھا کرنا بچپن کی یادوں کا حصہ ہوتا ہے۔ ان کو پکڑ لینا مشکل نہیں۔ اپنی ہتھیلیوں کے کٹورے میں بند ان کو دمکتے دیکھا جا سکتا ہے۔ “یہ کیسے ہوتا ہے؟” اس سوال کا جواب آسانی سے نہیں ملتا۔ اگر کسی جگنو کو چیر پھاڑ کر اس کا “بلب” دیکھنے کی کوشش کریں گے تو کچھ نہیں ملے گا لیکن اس کو تھام کر دیکھنا اس جادو کا کچھ سراغ دیتا ہے۔ حیاتیاتی نور سرد روشنی ہے۔ ہمیں یہ حیران کن لگتا ہے کیونکہ روشنی سے ہمارا روزمرہ کا تجربہ ایسا نہیں۔ دھوپ، موم بتی کی روشنی یا روشنی کے بلب ۔۔۔ روشنی اور حرارت ساتھ ساتھ رہتے ہیں، لیکن ایسا ہونا لازم نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام روشنی ایٹموں سے آتی ہے۔ بوہر کے سادہ ماڈل کا تصور کریں جس میں مثبت چارج والے نیوکلئیس کے گرد مداروں میں الیکٹرون ہیں۔ مختلف فاصلے مختلف توانائی کے لیول کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر الیکٹرون توانائی جذب کرے تو باہری خول کی طرف چھلانگ لگا دیتا ہے۔ اور جب واپس آتا ہے تو روشنی کا پیکٹ خارج کرتا ہے جو کہ فوٹون ہے۔ تمام روشنی اس بنیادی پراسس سے پیدا ہوتی ہے۔ روشنی کی مختلف اقسام میں فرق صرف اتنا ہے کہ الیکٹرون کو توانائی کس نے دی۔
موم بتی کے شعلے میں الیکٹرون کو تھرمل توانائی ملی ہوتی ہے۔ موم بتی (یا بلب) کی روشنی کو incandescence کہتے ہیں۔ اور چونکہ یہ عام ہے تو اس وجہ سے ہم حرارت اور روشنی کا تعلق سمجھتے ہیں۔ لیکن الیکٹرون کو ایکسائیٹ کرنے کے اور طریقے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر کیمیائی ری ایکشن سے۔ ایسی روشنی کو chemiluninescence کہتے ہیں۔ Bioluinescence اسی کی ایک خاص شکل ہے۔ اس میں روشنی پیدا کرنے والے کیمیکل زندہ اشیا نے بنائے ہوتے ہیں۔
روشنی کے دیگر طریقے بھی ہیں۔ sonoluminescence آواز سے جبکہ triboluminescence کیمائی بانڈ توڑنے سے آتے ہے۔ اس کے علاوہ fluorescence اور phosphorescence میں ایکسائیٹ کرنے والی توانائی روشنی سے آتی ہے۔
فلورسنٹ اشیا روشنی کو ایک رنگ میں جذب کرتی ہیں اور لمبی ویولینتھ میں اخراج کرتی ہیں۔ ٹیوب لائٹ میں شیشے کی ٹیوب میں چمکنے والا میٹیریل ہوتا ہے جو گیس کے ایٹموں کے الٹراوائلٹ فوٹون جذب کر کے دکھائی دی جانے والی روشنی کے فوٹون خارج کرتا ہے۔ چونکہ اس میں انفراریڈ روشنی (حرارت) کے فوٹون کا اخراج نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اس لئے روشن ٹیوب لائٹ کو بغیر جلے اپنا ہاتھ لگایا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیاتیاتی نور پیدا کرنے والے luciferin اور luciferase ہیں۔ یہ فرانس کے فزیولوجسٹ رافیل ڈوبوئے کی اصطلاحات ہیں جو اس شعبے کی تحقیق کے بانی ہیں۔ انہوں نے دو جانداروں میں سے روشنی پیدا کرنے والے کیمیکل لئے اور یہ دکھایا کہ اگر ان ٹشو کو ٹھنڈے پانی میں پیس کر ڈالا جائے تو کئی منٹ تک روشنی رہتی ہے جبکہ گرم پانی میں ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ٹھنڈے پانی میں روشنی بجھ جانے کے بعد گرم پانی والا ٹشو اس میں ڈالا جائے تو یہ پھر روشن ہو جاتا ہے۔
ڈوبوئے نے اس کی بنیاد پر ان کو دو کیمیکلز کا نام دیا۔ یہ اصطلاحات اب بھی استعمال ہوتی ہیں لیکن اصل میں یہ دو کیمیکل نہیں بلکہ جاندار اشیا میں ان کی بڑی ورائٹی ہے جس سے جاندار اشیا روشنی پیدا کرتی ہیں۔
اور روشنی پیدا کرنے کے اس قدر زیادہ طریقوں کی موجودگی سے ہمیں یہ پتا لگتا ہے کہ یہ صلاحیت کتنی اہم ہے۔
خاص طور پر تاریکی میں رہنے والے کئی جانداروں کے پاس یہ حربہ ہے کہ اپنی روشنی خود پیدا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانداروں کی تاریخ میں آنکھ کا ارتقا کم از کم پچاس مرتبہ آزادانہ طور پر ہوا ہے۔ سادہ گڑھوں سے لے کر کیمرہ کی طرح کے سٹرکچرز اور کمپاؤنڈ آنکھوں تک جیلی فش، مکھی، کیچوے، مچھلی، وہیل جیسے بہت سے جانداروں میں آنکھ بہت سی اقسام کی ہیں۔ یہ دیکھنے کی صلاحیت کی اہمیت کا بتاتی ہے۔ اور حیاتیاتی نور کی صلاحیت بھی کچھ ایسی ہی ہے تاہم ایک فرق ہے۔ تمام آنکھوں کی کیمسٹری ایک ہی جیسی ہے۔ (روشنی سے حساس پروٹین اوپسین اس کی بنیاد ہے) جبکہ روشنی پیدا کرنے والے کیمیکل جانداروں کے الگ گروہوں میں منفرد ہیں اور سائنس کے لئے یہ خزانہ ہے۔
ایک کیمیکل (گرین فلورسنٹ پروٹین) روشنی پیدا کرنے والے جیلی فش سے لیا گیا ہے۔ خلیاتی بائیولوجی کی یہ دریافت اس قدر ایڈوانسڈ ہے کہ اس دریافت کو مائیکروسکوپ کی ایجاد سے تشبیہہ دی جا رہی ہے۔ سمندری جگنو کی روشنی نے ٹیومر کا عکس لینے کی ٹیکنالوجی ممکن کی ہے اور اس پر تحقیق بھی کہ کینسر کے خلاف ایجنٹ کسی ایک جانور پر کس طرح اثر کرتے ہیں۔ زمینی جگنو کی کیمسٹری کو بیکٹیریا کے ٹیسٹ کرنے کے لئے عام استعمال کیا جاتا ہے ۔۔۔ اور مریخ پر زندگی کی تلاش میں بھی۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ اور بہت سے دیگر کیمیکل ہیں جو اپنے دریافت ہونے کے منتظر ہیں۔ اور نئی ایجادات اور نئے بریک تھرو کئے جا سکتے ہیں۔
جہاں پر ہم وہ کیمیکل شناخت کر لیتے ہیں جو یہ روشنی پیدا کرتے ہیں، وہ اس چیز کا جواب نہیں دیتے کہ “یہ پیدا ہوتی کیسے ہے”۔ صرف کیمیکل شناخت کر لینا ویسے ہے کہ ہم کہیں کہ ہم نے یہ دریافت کر لیا کہ گاڑی چلتی کیسے ہے جبکہ ہمیں صرف یہ پتا ہو کہ یہ پٹرول پر چلتی ہے۔
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں