“تاریک رات میں سمندر نے ہمیں انتہائی خوبصورت اور دلفریب نظارہ دیا۔ ہم پلاٹا کے جنوب میں سفر کر رہے تھے، تازہ ہوا چل رہی تھی اور سمندر کا وہ حصہ جو دن میں جھاگ لگتا تھا، اب ہلکی روشنی میں چمک رہا تھا۔ ہمارا بحری جہاز مائع فاسفورس کی دو لکیروں کے درمیان سے سفر کر رہا تھا اور اس کے پیچھے دودھیا ٹرین بن رہی تھی۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی، ہر لہر کی اوج روشن تھی جیسے شعلے لپک رہے ہوں”۔
یہ الفاظ چارلس ڈارون کے ہیں جب وہ یوراگوئے کے قریب سفر کر رہے تھے۔ جو منظر انہیں نے دیکھا تھا، یہ روشنی پیدا کرنے والے ڈینو فلیگلیٹ کے مرہون منت تھی۔ یہ پانی میں ہونے والی کسی آہٹ پر روشن ہو جاتے ہیں اور سرد نیلی روشنی ہر لہر کے کنارے پیدا کرتے ہیں۔
یہ روشنیاں عام ہیں لیکن جدید کشتیوں کی مصنوعی روشنیوں اور ساحل میں شہری روشنیوں میں اکثر بار کھو جاتی ہیں اور ایسے شاعرانہ مناظر دید سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈینو یک خلوی جاندار ہیں لیکن سادہ بالکل بھی نہیں۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کا ڈی این اے انسانوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ کئی انواع میں انسان سے سو گنا زیادہ۔ ان کی بہت متنوع انواع ہیں جو ہر قسم کی جگہ پر رہتی ہیں اور پچاسی فیصد سمندری ہیں۔
کچھ ڈینو زہریلے مادے خارج کرتے ہیں۔ اور اس قدر زیادہ کہ پانی کو سرخ کر دیتے ہیں اور ایسے زہریلے پانی میں اگر آبی جانوروں ہوں تو ان کے کھانے سے کئی اقسام کی بیماریاں ہوتی ہیں شارک سے دس گنا زیادہ انسانی اموات کا سبب ہیں۔
روشنی کرنے والے ڈینو کے جھرمٹ میں ان کی بڑی تعداد ہوتی ہے۔ ایک پانی کے کپ میں یہ کروڑوں کی تعداد میں ہو سکتے ہیں۔ چند ایسے خاص مقامات ہیں جہاں پر یہ تمام سال روشنیاں پیدا کرتے ہیں۔ ایسی جگہیں سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنتی ہیں۔
ارسطو نے ان روشنیوں کا ذکر چوتھی صدی قبلِ مسیح میں کیا تھا۔ اس سے دو ہزار سال بعد بنجمن فرینکلن نے بھی ان پر تبصرہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس روشنی کا منبع خود سمندر ہے اور یہ کسی طرح سے پانی اور نمک کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن انہیں میسی چیوسٹ کی ریاست کے گورنر جیمز بوڈوین کا خط موصول ہوا۔ بوڈوین کو تجربات کرنے سے دلچسپی تھی اور انہوں نے کہا کہ “میں نے دریافت کیا ہے کہ اگر اس پانی کو کپڑے میں چھانا جائے تو چمک غائب ہو جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ننھے منے جانوروں کی وجہ سے ہو جو کہ سمندر کی تہہ پر تیرتے ہیں”۔ فرینکلن نے اس سے اتفاق کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈینو جانور نہیں اور نہ ہی یہ نباتات میں شمار ہوتے ہیں اور نہ یہ فنگس ہیں۔ یہ پروٹسٹ ہیں۔ لیکن سوال یہ کہ یہ روشنی کیسے دیتے ہیں؟ اس پر تحقیق کی ضرورت تھی۔
اگر آپ سائنسدان نہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ سوچیں کہ ایسے سوالات کے جواب جاننے کا کیا فائدہ؟ اس تحقیق کی بھلا کی ضرورت ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہو گا۔
اور یہ وہ تفریق ہے جو کہ بنیادی سائنس اور اطلاقی سائنس کی ہے۔ اطلاقی سائنس میں ہم کسی خاص مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلاں بیماری کا علاج کیسے کیا جائے؟ زیادہ تباہ کن بم کیسے بنایا جائے؟ وغیرہ۔ لیکن بنیادی سائنس میں ایسے سوالات کے جواب تلاش کئے جاتے ہیں جن کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا بلکہ ان کی وجہ انسان میں بنیادی تجسس کا مادہ ہے۔ اور سائنس کی بڑی دریافتیں بنیادی سائنس پر کام کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اطلاقی سائنس کی بنیاد بنیادی سائنس فراہم کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر زندہ جاندار کے پاس ماحول کے مطابق ردعمل دینے کے طریقے ہوتے ہیں۔ عضو، خلیہ یا نظام جہاں یہ ردعمل ہو effector system کہلاتا ہے۔ اگر آپ کا ہاتھ انتہائی گرم شے پر لگ جائے تو یہ فوری طور پر ہٹ جائے گا۔ ددماغ میں اس کی تکلیف بعد میں رجسٹر ہو گی۔ اس کام کے لئے سنسری نیورون ہیں۔ یہ ممکنہ طور پر ضرررساں چیز کو محسوس کرتے ہیں جو کہ سگنل کو موٹر نیورن میں منتقل کرتے ہیں جو کہ اسے ایفکٹر کو پیغام بھیجتے ہیں۔ یہاں پر یہ مسل ہے جو کہ ہاتھ ہٹانے کا کام کرتا ہے۔ مالیکیول کی سطح پر دیکھا جائے تو ایکٹین اور مائیوسین دو بڑے مالیکیول ہیں جو کہ اس کام کو سرانجام دیتے ہیں۔
ڈینو کا چمکنا بھی ایسا ہی ایفکٹر سسٹم ہے۔ جاندار کے ٹکرانے جیسے عمل سے ایک برقی رو پیدا ہوتی ہے جو کہ کسی طریقے سے روشنی پیدا کرنے کا ٹرگر بنتی ہے۔ جس طرح ہمارے ہاتھ کو کھینچ لینے میں شعوری فیصلہ شامل نہیں، یہ ویسا ہی ردعمل ہے اور یہ صرف ایک خلیے کے اندر ہی ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی دھڑکتی ہے، لرزتی ہے، جگمگاتی ہے اور اس کے پیچھے خلیے کی جھلیاں ہیں، ہماری حرکت، ہماری سوچ اور ہمارا وجود اس چیز کے مرہون منت ہے کہ خلیات برقی سگنل کو منتقل کر سکتے ہیں۔ اور یہ برقی رو ویسے نہیں جیسی الیکٹرونکس کے سرکٹ میں ہوتی ہے۔ اس برقی رو میں ان جھلیوں کے پار آئیون بہتے ہیں۔
نیورن میں سوڈیم اور پھر پوٹاشیم کے آئیون کے گیٹ پلک جھپکنے سے کم وقت میں ایگزون کی لمبائی میں سفر کرتے ہیں۔ یہ رفتار بہت کم ہے لیکن زندگی کے نظام جاری رکھنے کے لئے کافی ہے۔ مثلاً، کاکروچ کے اعصابی ریشے میں بہنے والی رو کی رفتار دس میٹر فی سیکنڈ ہے۔ یہ بجلی کی تار میں بہنے والے کرنٹ سے اڑھائی کروڑ گنا سست رفتار ہے لیکن پھر بھی اس کام کے لئے کافی ہے کہ یہ آپ کے پاؤں تلے مسلا نہ جائے۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ، 17 جنوری، 2025
زندہ روشنیاں (5) ۔ سمندر کے شعلے
Tags
Below the Edge of Darkness#
Share This
About Wahara Umbakar
Below the Edge of Darkness
لیبلز:
Below the Edge of Darkness
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں