باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 17 جنوری، 2025

زندہ روشنیاں (7) ۔ نصف میل نیچے


حیاتیاتی روشنی ہر رنگ میں ہوتی ہے۔ سرخ، نارنجی، زرد، سبز، نیلی، جامنی۔  تاہم، کھلے سمندر میں نیلا رنگ سب سے زیادہ ہے۔ سمندر کی نیلاہٹ کی وجہ یہ ہے کہ نیلا رنگ پانی میں دور تک جاتا ہے تو سمندر میں روشنی کو دور تک پہنچانے کے لئے یہ رنگ بہترین ہے۔ چونکہ سمندر میں دھوپ میں سے جو رنگ گہرائی تک پہنچتا ہے، وہ نیلا ہے تو بہت سے سمندری جانور ہیں جن کی آنکھیں صرف نیلی روشنی ہی دیکھ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے پانی میں سے سب سے کم دور تک جانے والا رنگ سرخ ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ گہرے سمندر کے جانوروں کے رنگوں میں سرخ رنگ اتنا عام کیوں ہے۔ یہ چھپنے کے لئے بہترین رنگ ہے۔ جب کسی سرخ جاندار پر نیلے رنگ کی روشنی پڑے تو یہ نظر نہیں آتا۔ سمندر کی نیلی روشنی میں سرخی سیاہی کے مترادف ہے۔
تاہم، فطرت میں ہمیں ہر طرح کی ورائٹی ملتی ہے۔ اس کی ایک مثال سٹاپ لائٹ فش ہے۔ یہ نہ صرف نیلی بلکہ سرخ روشنی بھی دیکھ سکتی ہے۔ اور اس کی خوراک سرخ شرمپ ہے جسے یہ اس حربے کی وجہ سے دیکھ لیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہرے سمندر میں زیادہ تر جانور چھوٹے سائز کے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گہرا سمندر خوراک کے لئے اچھی جگہ نہیں۔ ہیچٹ فش ایک سکے کے سائز کی ہے۔ لالٹین فش نیل کٹر کے سائز کی۔ خوفناک سمجھی جانے والی وائپرفش کا سائز ایک فٹ ہے۔
اور یہاں پر روشنی پیدا کرنے والے قسم قسم کے جاندار ہیں۔ ان کی قسم قسم کی روشنیاں ہیں اور ان کی قسم قسم کی وجوہات ہیں۔ خوراک، چھپنا، جنسی ملاپ کے لئے رفاقت کی تلاش ۔۔۔۔ گہرے سمندر کے روشن جانوروں کی اپنی ایک دنیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہرے سمندر میں انسانوں کو لے جانے والی پہلی گاڑی (submersible) 1930 کی دہائی کی ہے۔ جب ولیم بیب اور اوٹس بارٹن نے 35 بار برمودا کے قریب غوطہ زنی کی۔ یہ فولادی کرہ تھا جس کا ڈیزائن بارٹن نے کیا تھا۔ اس کو فولادی تار سے لٹکایا جاتا تھا جو کہ بھاپ کے انجن سے اوپر نیچے کیا جاتا تھا۔ اس میں چھ انچ کی شیشے کی کھڑکی تھی جس سے باہر جھانکا جا سکتا تھا۔ یہاں پر جو مشاہدات کئے گئے، اسے نیشنل جیوگرافک کے مضامین کی سیریز میں شائع کیا گیا اور پھر کتاب کی صورت میں جس کا عنوان “نصف میل نیچے” تھا۔
غوطہ زنی کی ٹیکنالوجی میں کئی جدتیں آئیں تاہم یہاں پر زور اس بات پر تھا کہ سمندر کی تہہ تک جایا جائے۔ یہاں پر پتھر اکٹھے کئے جا سکتے تھے اور کورل جیسے جانور مل سکتے تھے جو کہ کہیں بھاگ کر نہیں جاتے۔ زیادہ تر مہم جو درمیان کے سمندر کو توجہ نہیں دیتے تھے کہ تہہ میں زیادہ دلچسپ چیزیں موجود ہوں گی۔ اس علاقے کی کھوج کی طرف 1980 کی دہائی سے قبل کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
ہم اپنی زندگی کا بڑا حصہ زمین پر پیر گاڑے ہوئے گزارتے ہیں۔ اور اس وجہ سے پانی کی دنیا کی اصل نیچر ہمارے لئے اجنبی ہے۔ جبکہ زمین کی سطح کا صرف 29 فیصد خشکی ہے جبکہ باقی پانی ہے۔ لیکن یہ اعداد اصل مسئلے کو اجاگر نہیں کرتے۔ ہم دو ڈائمنشن میں سوچتے ہیں۔ خشکی ایک بہت باریک سی تہہ ہے۔ اونچائی میں قدآور درختوں کی بھی فٹوں میں پیمائش کی جا سکتی ہے۔ جبکہ سمندر میں نہ صرف وسعت سطح کی ہے بلکہ گہرائی ایک اور الگ ڈائمنشن ہے۔ اور حجم کے حساب سے دیکھا جائے تو زندگی کے لئے جو علاقے ہیں، ان میں سے 99.5 فیصد سے زیادہ سمندر کا ہے۔ ار یہ خالی نہیں بلکہ زندگی سے بھرپور ہے۔ جبک ہمارا اس عظیم ایکوسسٹم کے بارے میں علم بہت اچھا نہیں اور آلات محدود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بیچ سمندر کی زندگی کے بارے میں ہمارے علم کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ سمندروں میں جال ڈالے جاتے ہیں جنہیں گھسیٹے ہوئے ان میں جو پھنس جائے، ان اکٹھی ہونے والی مخلوقات کی سٹڈی کی جاتی ہے۔ اور میرین بائیولوجسٹ میں ایک مذاق عام ہے کہ وہ صرف ان مخلوقات سے زیادہ واقف ہیں جو کہ سست ہیں، بے وقوف ہیں اور لالچی ہیں۔ کچھ جاندار اتنی تیز نہیں تیرتے کہ وہ جال سے بچ سکیں۔ کچھ جال کو خطرہ نہیں سمجھتے (اور ایسا سمجھنے کی کوئی وجہ بھی نہیں) جبکہ کچھ آسان خوراک کی تلاش میں جال میں آ جاتے ہیں۔
کتنی ایسی انواع ہیں جو کہ اس قدیم طریقے سے قابو میں نہیں آتیں؟ اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا اور اس وجہ سے پانی کی اس دنیا کا مشاہدہ کرنے کے لئے اس میں داخل ہونا ضروری ہے۔
تاہم، یہ آسان کام نہیں۔ نہ صرف انجینیرنگ کیلئے بلکہ ایسے تربیت یافتہ سائنسدان جو کہ یہ کر سکیں، اس کے لئے نہ صرف سائنس اور مشاہدہ کرنے کی تربیت چاہیے بلکہ جسمانی طور پر بھی بہت تربیت درکار ہے۔ اور یہ خطرے سے خالی کام نہیں ہے۔
(جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں