سمندر کی گہرائی میں سفر کرتے وقت رنگ، روشنی، درجہ حرارت، نمک کا تناسب، پریشر، آکسیجن وغیرہ تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہر 33 فٹ کی گہرائی پریشر میں 1 ایٹماسفئیرک پریشر کا اضافہ کرتی ہے۔
جب سمندر میں داخل ہوں تو رنگ بدل جاتا ہے۔ رنگا رنگ دنیا سبز اور نیلی ہو جاتی ہے۔ پھر یہ گہرا نیلا ہو جاتا ہے۔ روشنی کم ہونے لگتی ہے۔ گہرائی کے ساتھ روشنی کی شدت میں کمی تیزی سے ہوتی ہے اور ساتھ ہی رنگ بھی بدلتے ہیں۔
اگر سمندر کا پانی بالکل شفاف ہو تو ہر ڈھائی سو فٹ کی گہرائی کے بعد دھوپ پہلے سے دسواں حصہ رہ جاتی ہے۔ لیکن غوطہ خور کو ایسا محسوس نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری آنکھیں linear نہیں بلکہ logarithmic سکیل پر کام کرتی ہیں۔ یہ ایک حیران کن صلاحیت ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ آنکھ ہم سے کچھ جھوٹ بولتی ہے۔ دسویں حصے کو نصف ریورٹ کرتی ہے۔
ایڈتھ وڈر برمودا میں submersible پر اپنے پہلے گہرے غوطے کا بیان کرتی ہیں۔
دو سو فٹ نیچے چھوٹے سرخ کیکڑوں کا جھنڈ تھا۔ کیکڑے؟ یہ غیرمتوقع تھا اور یہ سیکنڑوں کی تعداد میں تھے۔ ایک دوسرے سے ایک سے دو میٹر کے فاصلے پر توانائی صرف کئے بغیر تیر رہے تھے۔ ہم مزید گہرائی میں جانے لگے۔ اور اب حیران کن مخلوقات سے واسطہ پڑنے لگا۔ ایک کنگھی جیسی ٹانکوں والی جیلی فش تھی جس کے دو بہت لمبے tentacle تھے۔ ہر ایک میں باریک بالوں کا جال تھا۔ جب اسے ہماری موجودگی کا احساس ہوا تو ان کو سکیڑ کر بھاگ گئی۔ ہمیں ایک siphonophore ملا جو کہ نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ یہ ایک قسم کا مونگا ہے جو پنکھے کی شکل کے قرنی ڈھانچے پر ٹکا ہوتا ہے۔ اس کے شفاف بدن میں گویا گھنٹیاں سی لٹی رہی تھیں اور ایک لمبی رسی نما دم سی پانی کو کاٹ رہی تھی۔ اس کی رفتار اور سبک حرکات دل فریب اور عجیب تھیں۔ آٹھ چپو نما پیر لہریں بناتے تھے جن کی تال میل سے یہ سیدھی لکیر میں یا ترچھا ہو کر یا موڑ کاٹ کر سفر جاری تھا۔
کچھ اور گہرائی میں چھ انچ کی چاندنی رنگ کی مچھلی عمودی لٹکی تھی۔ سر اوپر اور دم نیچے۔ لیکن کیوں؟ پھر میرے ذہن میں ایک اور سوال آیا۔ ان مخلوقات کے رویے کا ہماری موجودگی کی وجہ سے کتنا اثر ہے؟
اب ہم آٹھ سو فٹ گہرائی میں جا چکے تھے۔ بحری جہاز اور اس کیپسول کے درمیان ایک نالی ہے۔ یہاں سے رابطہ بھی کیا جاتا ہے، پاور بھی ملتی ہے۔ اور اگر کچھ گڑبڑ ہو جائے تو اسے واپس اوپر کھینچا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ نالی گھومنے پھرنے کی آزادی میں رکاوٹ بھی بنتی ہے۔
ایک بڑی جیلی فش پر روشنی پڑی۔ سفید خمدار ٹانگیں جن کے گرد شیشے جیسے گول ڈسک لگی تھی۔ یہ روشنی سے نکل کر تاریکی کی طرف چلی گئی۔ اس کا پیچھا کرنے کی کوشش کی تو بحری جہاز سے منسلک نالی نے اچانک ہی روک دیا، ویسے جیسے کسی چیز کے پیچھے بھاگتے کتے کو اچانک ہی اس کا پٹہ روک دے۔ اس پر مجھے ڈانت پڑی کہ احتیاط کرنا ہو گی۔
جیلی فش جا چکی تھی۔ اب ایک بڑی اور شاندار شرمپ کا سامنا تھا۔ یہ ایسے حرکت میں تھا جیسے برف میں سکینگ کی جاتی ہے۔ اس کے لمبے اینٹینا سکی کا کام کر رہے تھے۔ یہ سامنے کو نکلے تھے اور آگے پیچھے کی حرکت کرتے تھے جبکہ برف کا کام سمندری “برف” کر رہی تھی۔ یہ سفید ذرات ہوتے ہیں جو کہ سمندر کی گہرائی میں نامیاتی مادہ ہے۔ پلانکٹن جب گلتے سڑتے ہیں یا ان کا فاضل مادہ تہہ کی طرف جاتا ہے تو گویا سفید ذرات کی بارش کا سماں ہوتا ہے۔ ان جانداروں کو اصل مقام پر دیکھنا اس سے بہت مختلف ہے جیسے یہ جال میں نظر آتے ہیں۔ شرمپ کے جسم شفاف تھے، ماسوائے سر کے پیچھے جو سرخ رنگ کا تھا۔ انہیں دیکھ کر دل کرتا تھا کہ دیکھتے ہی رہا جائے لیکن وقت نہیں تھا۔
انسانی آنکھ کو یہاں کی تاریکی سے ایڈجسٹ ہوتے ہوئے بیس منٹ لگ جاتے ہیں۔ گاڑی کی تمام روشنیاں بجھا لیں تا کہ یہ عمل شروع ہو سکے لیکن انتظار نہیں کرنا پڑا۔ نظارہ ایسے تھا جیسے ستاروں میں گھرے ہوں۔ جہاں نظر جائے، روشن ذرات تھے۔ ویسے جیسے کسی صحرا میں اماوس کی صاف رات میں ستارے جگمگا رہے ہوں۔ لیکن یہ ساکن نہیں تھے۔ ہر طرف تیر رہے تھے۔ ویسے جیسے کوئی آرٹسٹ اپنے آرٹ کی تخلیق کر رہا ہو۔ وان گو کی “تاروں بھری رات” کا آرٹ زندہ ہو گیا ہو۔ میرا سانس گلے میں اٹک گیا۔
کسی ایک ستارے کی طرف دیر تک فوکس کرنا مشکل تھا۔ لیکن کچھ دیر بعد یہ معلوم ہو گیا کہ یہ محض روشنی کے نکتے نہیں تھے۔ قریب سے دیکھنے پر پتا لگا کہ ایک جاندار میں دو سے چار ننھے روشن گولے زنجیر میں بندھے تھے۔ “جل پری کے آنسو”۔ میرے ذہن میں یہ فقرہ آیا۔ یہ مسلسل اور یکساں رہنے والی روشنی نہیں تھی۔ آہستہ سے روشن ہوتی تھی۔ کچھ دیر روشن رہتی تھی۔ مدہم پڑتی تھی اور بجھ جاتی تھی۔ گاڑی کی حرکت ان روشنیوں پر اثرانداز ہوتی تھی۔ جل پریوں کے ان آنسوؤں کے علاوہ بھی کئی دیگر روشنیاں تھیں۔ کچھ نیلے دودھیا سے کہکشائی بادل لگتے تھے۔ پھر دور کے چراغ جو تین سیکنڈ کے لئے جل اٹھے تھے اور پھر گل ہو جاتے تھے۔ میرا منہ حیرت سے کھلا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنی پیدا کرنے کے لئے توانائی چاہیے اور بہت سی توانائی خرچ ہوتی ہے۔ توانائی زندگی کی کرنسی ہے اور یہ کبھی فضول میں ضائع نہیں کی جاتی۔ تو پھر یہ یہاں پر کیوں تھی؟ اور میرے ذہن میں ایک اور سوال آیا کہ اس پر تحقیق کا فقدان کیوں؟ زمین کی حیات میں جگنو جیسے صلاحیت رکھنے والے حیات کا مرکزی کردار نہیں لیکن سمندری حیات میں یہ سٹیج کے ستارے ہیں۔ محاورتاً بھی اور اصل میں بھی۔
میرے غوطے کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ اتنی جلدی؟ میرا واپس جانے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ گاڑی کی روشنی آن ہوئی۔ اس روشنی میں ایک بھی سمندر کا ایک بھی ستارہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اب مجھے سمجھ آیا کہ سمندری بائیولوجی کی کتابوں میں اس روشنی کا ذکر کیوں اتنا کم ہے۔ ہماری گاڑی کو کھینچنا شروع کیا گیا تو میں نے بتی بجھا دی۔ ایک بار پھر یہ نظارہ میرے سامنے تھا۔ اب میرے ذہن میں سوال دوڑ رہے تھے۔ اس روشنی کا یہاں پر کردار کیا ہے؟ کیا تجربات کئے جائیں کہ ان کا جواب مل سکے؟
ان سائنسی سوالات کے ساتھ ایک اور احساس نمودار ہو رہا تھا۔ اب مجھے یہاں واپس آنا ہو گا، دوبارہ آنا ہو گا۔ بار بار آنا ہو گا۔ اس کے سوا اب میرے پاس کوئی اور انتخاب نہیں تھا۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
Your Ad Spot
جمعہ، 17 جنوری، 2025
زندہ روشنیاں (8) ۔ غوطہ
Tags
Below the Edge of Darkness#
Share This
About Wahara Umbakar
Below the Edge of Darkness
لیبلز:
Below the Edge of Darkness
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
رابطہ فارم
Post Top Ad
Your Ad Spot
میرے بارے میں
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں