"انسانوں کی طرح، جانوروں کے بچوں کو بھی یہ سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ بالغ ہونے تک کن چیزوں میں مہارت حاصل کی جائے۔ بچپن کی تربیت کی جانور کی زندگی میں اہمیت ہے۔ اگر آپ کا خیال ہو کہ جانوروں کے رویے صرف جبلت کے تحت ہیں اور ایک جامد جینیاتی پروگرامنگ کے زیرِ اثر ہیں تو پھر تربیت کا تصور بے معنی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس ہر صورتحال کے لئے پہلے سے پروگرام کردہ ردِعمل موجود ہو گا۔ لیکن اگر آپ جانوروں کے ساتھ رہے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ یہ ایک بے تکا خیال ہے۔ اور اس کے لئے پالتو جانوروں کو چھوڑ کر جنگل کی طرف چلتے ہیں۔
سب سے پہلے چھوٹے جانداروں کو دیکھتے ہیں جو کہ کیڑے ہیں۔ اگر یہ شہد کی مکھیوں یا چیونٹیوں کی طرح کالونی میں نہیں رہتے تو پھر ہر ننھا بچہ اپنا خود ذمہ دار ہے۔ ان کو زندگی کے خطرات سے آشنائی دینے والا کوئی نہیں اور اس نے خود ہی سب کچھ سیکھنا ہے۔ تو پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ زیادہ تر ننھے کیڑے پرندوں اور دیگر شکاریوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ بغیر والدین کے دنیا میں رہنے میں زندہ رہنے کا امکان کم ہوتا ہے اور شاید اسی وجہ سے کیڑوں کے بے تحاشا بچے پیدا ہوتے ہیں۔
چوہے بھی افزائشِ نسل تیز کرتے ہیں لیکن کیڑوں کے مقابلے میں یہ رفتار بہت کم ہے۔ کھیتوں میں رہنے والے چوہوں کا اوسطاً ہر چار ہفتے بعد بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ دو ہفتے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ اگلی نسل پیدا کر سکے۔ لیکن ان کو تنہا نہیں چھوڑا جاتا۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ خوراک کیسی تلاش کرنی ہے۔
سمندری پرندے جیسے کہ دیوہیکل الباٹراس جنوبی بحرِاوقیانوس کے گوف آئی لینڈ مین مکمل تنہائی میں افزائش نسل کرتے ہیں۔ یہ اس وقت تک ایسا کرتے رہے جب تک کہ ایک دن ملاحوں نے جزیرے کو دریافت نہیں کیا اور نادانستہ طور پر گھریلو چوہوں کو یہاں پہنچا دیا جو ان کے جہازوں پر سوار ہو کر آئے تھے۔ چوہوں نے وہاں وہی کیا جو چوہے کرتے ہیں۔ انہوں نے سوراخ کھودے، جڑیں اور گھاس کے پتے کھائے اور تیزرفتاری سے اپنی تعداد میں اضافہ کیا۔ لیکن پھر، ایک دن، ان میں سے کسی ایک کو اچانک گوشت کا ذائقہ لگ گیا۔ کسی طرح سے الباٹراس کے چوزوں کو مارنا سیکھا ہوگا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ چوزے اپنے حملہ آوروں سے تقریباً دو سو گنا بڑے ہوتے ہیں۔ چوہوں نے جلد ہی سیکھ لیا کہ ان میں سے بڑی تعداد کو ایک چوزے کو اس وقت تک کاٹتے رہنا پڑتا ہے جب تک کہ وہ خون بہہ کر مر نہ جائے۔
محققین نے نوٹ کیا کہ کئی سالوں تک، چوزوں کا شکار صرف جزیرے کے مخصوص حصوں میں کیا جاتا تھا۔ یہ واضح تھا کہ چوہوں کے والدین نے اپنے بچوں کو یہ تکنیک دکھائی۔ اگلی نسل کو یہ مہارت منتقل کی، جبکہ دوسرے علاقوں میں موجود دیگر چوہوں کو اس شکار کی حکمت عملی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ شکار کی سیکھی گئی حکمت عملیوں کے علم کی اگلی نسل تک منتقلی بہت سے بڑے ممالیہ جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے، جیسے کہ بھیڑیوں میں۔ اس کے علاوہ، جوان جنگلی سؤر اور ہرنوں کو بھی والدین کی طرف سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ ان راستوں پر سفر کریں جن پر ان کی پچھلی نسلیں دہائیوں سے گرمائی سے سرمائی چراگاہوں تک محفوظ طریقے سے جا رہی ہیں۔ اور اسی لیے ایسے راستے اکثر زیادہ استعمال کی وجہ سے اچھی طرح جانوروں کے قدموں تلے روندے ہوئے اور کنکریٹ کی طرح سخت ہوتے ہیں۔ جو جانور پرانی نسلوں سے سیکھتے ہیں وہ جلد موت سے بچ جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
جمعرات، 27 مارچ، 2025
حیوانات کی دنیا (30) ۔ پرورش
Tags
Inner Life of Animals#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Inner Life of Animals
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں