ایک ہرنوں کا ریوڑ اپنے ہی ایک ساتھی کے شکار ہونے کو کس طرح محسوس کرتا ہے؟ ایک ٹھاہ کی آواز اور خون کی اچانک بو آتی ہے۔ اکثر گولی کھانے والا جانور فوری نہیں گر پڑتا۔ ایک زخمی ہرن اپنے پیروں کے لڑکھڑانے اور گرنے سے پہلے چند گز گھبراہٹ میں بھاگتا ہے۔ یہ منظر، تناؤ کے ہارمونز کی بو کے ساتھ مل کر، ریوڑ کے دیگر ارکان کے شعور میں نقش ہو جاتا ہے۔ اور پھر جب شکاری آ کر شکار کو سمیٹنے آتا ہے تو چرچراہٹ اور دھمک کی آواز آتی ہے۔ یہ ذہین جانور اس سب کا تعلق معلوم کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد سے، راستے پر قدم رکھنے سے پہلے، وہ مشکوک نظروں سے شکاری کی جگہ دیکھتے ہیں کہ کیا وہاں کوئی بیٹھا ہے۔ شکاری عام طور پر اپنی چھپنے کی جگہیں کچھ مخصوص جگہوں پر بناتے ہیں جو ہرن کی لئے لذیذ پودوں کے قریب ہوتی ہے۔ اور اس طرح شامیں ایک مسلسل جاری موت کا کھیل بن جاتی ہیں۔ اگر بھوک جیت جائے ہے، تو ہرن یہاں جلد نمودار ہو جاتے ہیں اور شکاری کی نظر میں آ جاتے ہیں۔ اگر خوف جیت جائے تو بھوکے ہرن گھپ اندھیرے کا انتظار کرتے ہیں اور شکاری خالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
آئفل نیشل پارک کے ماہرینِ جنگلات نے مشاہدہ کیا کہ ہرن کس قدر باریکی سے یہ سب کچھ نوٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ شکاری اور محکمہ جنگلات کے ملازم کے پاس ایک ہی طرح کی گاڑی تھی۔ لیکن جب ملازم کی گاڑی قریب آتی تھی، تو یہ اپنی جگہ پر ہی رہتے تھے اور شکاری کی گاڑی کو بھانپتے ہی اڑنچھو ہونے لگتے۔ انہیں خطرناک اور بے ضرر افراد کے درمیان فرق معلوم تھا۔ اور یہ صرف ہرنوں تک نہیں ہے۔ یوریشیا میں رہنے والے جے برڈ کی مثال دیکھی جا سکتی ہے۔
زیاد تر جانور بچوں سے نہیں ڈرتے۔ جے برڈ بالغ افراد کو بھی نظرانداز کرتے ہیں لیکن جب شکاری آتے محسوس ہوں تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں تاکہ ہر کسی کو خطرے کا علم ہو جائے۔
جب انسان جنگلی جانوروں کے علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو جنگلی جانور تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر دو ٹانگوں والے مداخلت کرنے والے مسلسل علاقے میں داخل ہوتے ہیں، تو جانوروں کا نگرانی میں گزارا گیا وقت دن کے 5 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کے بارے میں جن کے بارے میں جانوروں کو علم نہیں کہ یہ خطرناک ہوں گے یا نہیں۔ اور ان میں سے بھی وہ لوگ جو اکیلے ہوں اور کسی عام راستے پر نہ ہوں۔ جانور صرف بوٹ کے نیچے کسی ٹہنی کے ٹوٹنے کی کبھی کبھار آواز اور شاید وقتاً فوقتاً گلے کی خاموش صفائی سن سکتا ہے—اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ پھر جانور بے چین ہو جاتے ہیں، اور دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک جانور جس نے اپنے خاندان کے کسی فرد کو خون میں لت پت گرتے ہوئے دیکھا ہے، یا جس نے اپنی ہڈیوں کی گہرائیوں میں خوف اور بڑھتے ہوئے گھبراہٹ کا تجربہ کیا ہے، ان تجربات کو آگے منتقل کرے گا، شاید کئی نسلوں تک۔ محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ منتقلی زبان کی عدم موجودگی میں بھی ہوتی ہے، کیونکہ خوف صرف محسوس نہیں کیا جاتا بلکہ جینز میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ میونخ میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار سائیکاٹری نے دریافت کیا کہ تکلیف دہ تجربات کے دوران خاص کیمیائی مارکرز (میتھائل گروپس) جینز سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ وہ سوئچ کی طرح کام کرتے ہیں اور جینز کی سرگرمی کو تبدیل کرتے ہیں۔ چوہوں کا استعمال کرتے ہوئے محققین کی دریافتوں کے مطابق، اس کا مطلب ہے کہ رویے کو زندگی بھر کے لیے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق یہ بھی پیش گوئی کرتی ہے کہ ان تبدیل شدہ جینز کی بدولت، رویے کے کچھ حصے موروثی ہو سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارا جینیاتی کوڈ نہ صرف جسمانی خصوصیات کو منتقل کرتا ہے بلکہ، کچھ حد تک، تجربات کو بھی منتقل کرتا ہے۔ اور آپ کے قریبی رشتہ داروں کے شدید زخمی ہونے یا موت سے زیادہ تکلیف دہ تجربہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہ خوشگوار خیال نہیں ہے کہ ہمارے ارد گرد رہنے والے بیشتر جانور صدمے کا شکار ہیں۔
Post Top Ad
جمعہ، 28 مارچ، 2025
حیوانات کی دنیا (37) ۔ شکاری کا خوف
Tags
Inner Life of Animals#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Inner Life of Animals
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں