باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 21 مارچ، 2019

امکانات کا دھوکا



کچھ برس پہلے کسی نے سپین کی قومی لاٹری جیتی۔ اس کے ٹکٹ کے آخری اعداد 48 تھے۔ جیتنے کے بعد اس نے اپنی کامیابی کا راز بتایا، “مجھے سات روز مسلسل خواب میں سات کا عدد آیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ میرے لئے اشارہ ہے۔ سات کو سات سے ضرب دیں تو 48 آتا ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے ڈھونڈ کر وہ ٹکٹ خریدا جس کے آخری اعداد یہ ہوں۔”

جن کو سات کا پہاڑا آتا ہے، وہ تو شاید اس کی بات پر ہنسیں (لاٹری جیتنے یا خوابوں کا مطلب سمجھنے کے لئے ریاضی اچھی ہونا شرط نہیں)۔ ہم سب دنیا کو دیکھنے کا اپنا اپنا طریقہ بناتے رہتے ہیں۔ اپنے لگائے گئے فلٹروں سے ڈیٹا کے سمندر سے معنی نکالتے رہتے ہیں۔ اور ایسی غلطیاں کرتے رہتے ہیں۔

غیریقینیت سے انسان اچھی طرح ڈیل نہیں کر سکتا۔ یہ ہمیں 1930 سے لے کر آج تک کی جانے والی سٹڈیز سے پتا ہے۔ اس دنیا کا رینڈم ہونا ہمیں طرح طرح کے دھوکے دیتا ہے۔ ہم مجموعی طور پر ان دھوکوں کو پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں۔ جہاں پر چانس آ جائے، سوچ کے عمل میں سنگین خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ہمیں ریاضی، کوگنیٹو نفسیات، بیہیوریل اکنامکس اور جدید نیوروسائنس سمیت کئی شعبوں کی مدد سے پتا تھا۔ اس سٹڈی کو شہرت دینے والے سائنسدانوں، ڈئنیل کاہنیمین اور آموس ٹویرسکی کا نوبل انعام اکنامکس میں ہے لیکن اس سے سیکھے گئے سبق اکیڈمک حلقوں یا پاپولر سائیکی تک نہیں پہنچے۔ چانس ہماری زندگی اور دنیا کا ایک اہم ترین عنصر ہے۔ سیاست، بزنس، میڈیسن، سپورٹس، تفریح سے لے کر انسانی زندگی کے تمام معاملات میں ہمارے دنیا امکانات کی دنیا ہے۔

جب انفارمیشن کی کمی ہو تو ایک ہی بات کے کئی معنی نکالے جانا ممکن ہے۔ کئی بار دوائیاں سٹڈی کے بعد محفوظ قرار پاتی ہیں لیکن کچھ اور ڈیٹا آ جانے کے بعد ان کو مارکیٹ سے ہٹا لیا جاتا ہے۔ کسی خوراک کے بارے میں ایک خبر آتی ہے، پھر نفی ہو جاتی ہے، گلوبل وارمنگ کے اسباب پر بحث کرنے والے کا کہیں اپنی مطلب کا ڈیٹا بھی مل جاتا ہے۔ میڈیکل ٹیسٹ کو دیکھ کر ڈاکٹر غلط مطلب نکال لیتا ہے۔ مریض اپنی صحتمند ہو جانے کا سبب کسی ڈبہ پیر کے تعویذ کو قرار دیتا ہے۔ بنگالی بابوں سے لے کر مستقبل کے حال بتانے والے کے کاروبار پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔ امتحانوں کے نمبروں سے طلباء، اساتذہ اور والدین نتیجے نکالتے رہتے ہیں۔ سرمایہ کار اپنی مہارت کے بارے میں غلط اندازے لگاتے رہتے ہیں۔

مہارت یا چانس؟ اگر ہم کھیلوں کو دیکھیں تو ایک طرف شطرنج جیسے کھیل ہیں جہاں پر چانس کا عمل نہیں۔ دوسری طرف لڈو یا پھر کیسینو کی سلاٹ مشین جیسے جس میں مہارت کا عمل نہیں۔ ان کے بیج کے سپیکٹرم میں کہیں چانس زیادہ ہے، کہیں امکان۔ سب سے مقبول کھیل وہ ہوتے ہیں جہاں پر ان کا توازن ہو، فٹ بال یا کرکٹ جیسے کھیل۔ اور پھر چانس کہاں تھا اور مہارت کہاں، اس پر بحث کرتے رہتے ہیں۔

فٹ بال کے کلب اپنی کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار اپنے کوچ کو سمجھتے ہیں۔ جب ٹیم ناکام ہو تو کوچ کو نکال دیا جاتا ہے۔ کوچ بدلنے کا ریاضیاتی تجزیہ بتاتا ہے کہ اوسطا، کوچ کو بدلنے سے ٹیم کی کارکردگی پر زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ بزنس کی دنیا میں بھی ایسا ہے۔ کمپنیوں کے سربراہوں کو کوئی سپرہیومن سمجھا جاتا ہے جو پوری کمپنی کو بنا یا بگاڑ سکتے ہیں۔ کوڈاک، زیروکس، لیوسنٹ جیسی بہت سے کمپنیوں کو دیکھ کر پتا لگتا ہے کہ یہ سراب ہے۔ جیک ولچ کے دور میں GE دنیا کی نمبر ایک کمپنی تھی اور اس میں سب سے بڑا حصہ ان کے مالیاتی بزنس کا تھا۔ اس کے سربراہ گیری وینٹ کو سمارٹ ترین بزنس مین سمجھا جاتا تھا۔ مشکلات میں گھری کمپنی کونسکو نے کامیابی کی ضمانت سمجھے جانے والے گیری وینٹ کو ساڑھے چار کروڑ ڈالر کا بونس دے کر ادارے کا چیف ایگزیکٹو بنایا۔ کمپنی کی قسمت بدل جائے گی۔ شئیر ہولڈر اور مارکیٹ اس سے متفق تھی۔ کمپنی کا شئیر ایک ہی سال میں تین گنا ہو گیا۔ اس سے دو سال بعد کمپنی دیوالیہ ہو چکی تھی۔ وینٹ استعفیٰ دے چکے تھے۔ شئیر کی قیمت چند پینی تک گر گئی تھی۔

کیا وینٹ کی شہرت بے جا تھی؟ کیا ان کو اس ادارے میں ناممکن حالات کا سامنا تھا؟ کیا کامیابی اور ناکامی کا انحصار ایک ہی شخص پر ہوتا ہے؟ کیا کسی کا پرانا ریکارڈ اس کے مستقبل کی کارکردگی کی بھی ضمانت ہے؟ کسی ایک واقعے کو دیکھ کر اس کے جوابات اعتماد سے نہیں دئے جا سکتے۔

کوئی ملک ہو، ادارہ یا کوئی بھی اور چیز۔ کامیابی اور ناکامی کی وجہ کسی ایک شخص یا ایک فیکٹر کو قرار دے دینا، ایک آسان، مقبول اور غلط جواب ہوتا ہے۔ اپنی پسند کا جواب چن کر اس کو وجہ قرار دے دینا دماغ کا طریقہ ہے۔

انسانی intuition کے بہاوٗ کے خلاف تیرنا بڑا مشکل کام ہے۔ ذہن کی خاصیت ہے کہ وہ ہر واقعے کے پیچھے ایک اور آسان وجہ بتانا چاہتا ہے اور یہ تسلیم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کئی غیرمتعلقہ نظر آنے والے فیکٹر بھی تھے اور امکان کا بھی عمل دخل تھا۔ (شاید میرے جلد آوٗٹ ہو جانے میں میری خوش قسمت قمیض نہ پہننے سے زیادہ ہاتھ رات کو نہاری کھا کر پیٹ میں ہونے والے درد کا تھا اور ساتھ میں ہوا کے تیز جھونکے کا)

رینڈم نس فطرت کا بنیادی عنصر ہے اور روزمرہ زندگی میں عام مشاہدہ ہے۔ لیکن اس امکان کے ہاتھوں دھوکا کھانا سب سے آسان ہے۔

چانس اور مہارت کی پہچان کے کچھ ٹول تو ہمارے پاس ہیں لیکن ان کی نظر سے دنیا کو دیکھنا محنت طلب کام ہے۔

اس کے بارے میں جاننے کے لئے یہ کتاب
Fooled by Randomness: Nassim Taleb

سپین کی لاٹری جیتنے والے واقعے پر
https://awealthofcommonsense.com/2013/08/win-the-lottery/

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں