باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 28 نومبر، 2019

کل کی دنیا ۔ ڈاکٹر کی نظر سے



آج سے ایک نسل پہلے کی دنیا میں چلتے ہیں۔ ایک ادھیڑ عمر مرد کو کولہے اور ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف محسوس ہو رہی ہے اور کچھ خون آ رہا ہے۔ وہ یورولوجسٹ کے پاس گیا۔ اس نے ایک ریکٹل ایگزام کیا۔ اگر پراسٹیٹ پر ابھار ملا تو بتا دیا کہ پراسٹیٹ کینسر ہے، اس کو نکال دیتے ہیں۔ ڈاکٹر کا طریقہ یہ تھا کہ اس کے پاس ایک مسئلہ آیا، مزید انفارمیشن اکھٹی کی، اس کے بعد ایکشن کیا لیا جانا ہے، یہ آسان تھا۔

اب میڈیسن ایسے نہیں رہی۔

اب اگر آپ ایک ادھیڑ عمر مرد ہیں تو اس بات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جائیں اور پی ایس اے ٹیسٹ کروائیں۔ یہ خون کا ایک ٹیسٹ ہے جو ایک اینٹی جن کی پیمائش کرتا ہے۔ ان کی مقدار کا تعلق بڑھے ہوئے پراسٹیٹ سے ہے۔ اگر اس کا لیول ایک سطح سے زیادہ ملے تو ڈاکٹر کہے گا کہ ہمیں مزید قریب سے اس کو دیکھنا چاہیے۔ اس پر ایک الٹرا ساوٗنڈ تجویز کیا جائے گا۔ اگر الٹراساوٗنڈ کے ساتھ بھی مسئلہ نظر آیا تو پھر بائیوپسی کی جائے گی۔ اس میں اگر کوئی غیرمعمولی خلیاتی گروتھ نظر آئی تو پھر کچھ ایکشن تجویز کیا جائے گا۔ ریڈی ایشن، کیمیوتھراپی، سرجری یا پھر یہ کہ کچھ نہ کیا جائے۔

یہ طریقہ پچھلی نسل والے طریقے سے بالکل ہی فرق ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹر کو جو مہارت درکار ہے، وہ بھی بہت مختلف ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ ایک ہی عارضے کی بات ہو رہی ہے لیکن پچھلے اور موجودہ طریقے میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ اس تبدیلی کو سمجھنے کے لئے اس کو کچھ مزید گہرائی میں دیکھ لیتے ہیں۔

پی ایس اے ٹیسٹ میں سکور صفر سے شروع ہوتا ہے۔ جتنا یہ زیادہ ہو گا، اتنا پراسٹیٹ کے ایبنارمل ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ 4 کا سکور وہ ہے جب ہم کٹ آف لگائیں گے۔ اس سے زیادہ کو کہیں گے کہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اس کا انتخاب چار ہی کیوں کیا گیا؟ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں۔ یہ انتخاب کہیں نہ کہیں تو کرنا تھا۔ یہ بس ایک اچھی ججمنٹ ہے۔ یہ وہ سطح لگتی ہے جو مسئلے کی طرف اشارہ کر رہی ہو۔ اگر اس کو کم کر دیا جائے تو کیا زیادہ کینسر پکڑے جا سکتے ہیں؟ جی۔ لیکن کہیں نہ کہیں تو کٹ لگانا ہے۔

یہ خلیے کیسے لئے جاتے ہیں؟ اگر کوئی ٹیومر ہو تو اس میں سے کچھ خلیے حاصل کئے جاتے ہیں اور ان کو دیکھا جاتا ہے، جس کو بائیوپسی کرنا کہتے ہیں، کہ خلیے سرطان زدہ تو نہیں۔ اب یہاں پر کوئی ٹیومر تو ہے نہیں۔ ہم یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا پراسٹیٹ کسی ٹرانزیشن کی ابتدائی سٹیج میں تو نہیں ہے۔ اس کیلئے کیا کریں؟ پراسٹیٹ اخروٹ کے سائز کا ہے۔ اس کے چھ الگ جگہوں سے ایک سلائس لیا جاتا ہے۔ چھ ہی کیوں؟ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ یہ ایک اچھا نمبر ہے۔ اگر ہم بارہ سلائس لیں تو کیا کینسر پکڑے جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے؟ ہاں۔ لیکن کہیں نہ کہیں تو کٹ آف لگانا ہے۔

اور یہ جس کو ہم کینسر کہتے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ تین طرح کا ہو سکتا ہے۔ اول تو وہ جو اس قدر آہستہ بڑھتا ہے کہ اس کے علاج کی ضرورت نہیں۔ مریض کی اپنی بقیہ زندگی سے زیادہ اس کے پھیلنے پر لگ جائیں گے۔ اگر اس کو نظرانداز کر دیں تو کینسر سے پہلے کسی اور چیز سے فوت ہو جائیں گے۔ دوسرا وہ جو اس قدر تیزی سے بڑھتا ہے کہ اس کے علاج کا کوئی فائدہ نہیں۔ کچھ بھی کر لیں، زندگی نہیں بچائی جا سکتی۔ پراسٹیٹ کے زیادہ تر کینسر ان دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔

تیسری کیٹگری جس میں بڑھنے کی رفتار درمیانہ ہے اور اگر اس کو روک دیا جائے تو اس سے فوت ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ وہ کیٹگری ہے، جہاں پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ پہلی دو اقسام جہاں پر ضرورت نہیں اور فائدہ نہیں، ان میں کچھ نہ کرنا بہترین فیصلہ ہے اور کچھ کرنا غلط فیصلہ ہے۔

اب فزیشن کو اگلا سوال سوچنا ہے۔ پہلی دو کیٹگریز کے مقابلے میں تیسری کیٹگری کتنی عام ہے۔ اس کا جواب ہے کہ پراسٹیٹ کے زیادہ تر کینسر پہلی دو طرح کے ہیں، جہاں پر کچھ بھی کرنے کی تُک نہیں بنتی۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہوں گے کہ ڈاکٹروں کے لئے فیصلے لینا کتنا مشکل ہوتا ہیں۔

پرانے ماڈل میں ڈاکٹر کا کردار آپریشنل تھا۔ انفارمیشن حاصل کی اور فیصلہ لے لیا۔ اب یہ انفارمیشن کے تجزیہ کار کا ہے۔ اس کے پاس مریض کی انفارمیشن  بہت سی ہے اور اس نے فیصلہ لینا ہے کیا کرے۔ کوئی آسان سیدھا فیصلہ نہیں۔  پی ایس اے میں کس لیول کا انتخاب کرنا ہے۔ کتنے سلائس لینے ہیں۔ کیسے فیصلہ لینا ہے کہ کینسر خود کس کیٹگری کا ہے۔ خطرے اور فائدے کا توازن کیسے رکھنا ہے۔ اور پھر یہ فیصلہ کیسے لینا ہے کہ ڈرگز دی جائیں، ریڈی ایشن استعمال ہو یا سرجری کی جائے۔

ایک بیماری کے لئے ڈاکٹر کے لئے سوچنے کا انداز بہت جلد بہت زیادہ بدل گیا ہے۔ یہ فیصلہ اب عقلی طور پر پیچیدہ ہے۔

اس کا ایک اور بڑا پہلو بھی ہے جو کہ مریض ہے۔ یہ ڈاکٹر کے کردار کا سوشل پہلو ہے۔ آپریشنل کردار میں ڈاکٹر نے دیکھنا تھا کہ کینسر ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اس کو نکال دینا تھا۔ نئے رول میں ڈاکٹر نے بامعنی طریقے سے یہ سب کچھ مریض کو بتانا ہے تا کہ مریض کو پتا ہو کہ وہ فیصلہ کیا، کیسے اور کیوں لیا جا رہا ہے۔ وہ اپنی رائے دے سکے اور اس میں شریک ہو سکے۔ اگر آپ ایک مرد ہیں تو پراسٹیٹ کے کینسر ہونے کے امکان کا انحصار آپ کی عمر پر ہے۔ کیا آپ کو یہ ایگزام کروانا چاہیے اور کب؟ اس بات کا امکان کہ پہلے کی جانے والی تشخیص سے کینسر کا علاج ہو جانے سے زندگی کی طوالت میں اضافہ ہو سکتا ہے، اتنا کم ہے کہ میں اس کو کبھی  بھی نہیں کرواوٗں گا، کیونکہ شماریات بتاتی ہیں کہ سو میں سے ایک میں یہ مفید ہوتا ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ کوئی اور شخص انہی شماریات کو دیکھ کر یہ تشخیص کروانا چاہے۔ نہ میں ٹھیک ہوں اور نہ وہ غلط۔ یہ اب ایک انفرادی اور شخصی فیصلہ ہے کہ رِسک کے ساتھ کیسے ڈیل کرنا ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو آپ کو مریض کو سمجھنا بھی ہے، ان کا رِسک کے بارے میں کیا رویہ ہے، وہ کیسے رہنا چاہتا ہے۔ اور مریض کے ساتھ وہ مشکل بات چیت کرنی ہے تا کہ اسے آگاہ کیا جا سکے اور پھر مل کر فیصلے لئے جا سکیں۔ مریض کے مطابق حل تلاش کیا جا سکے۔

یہ وجہ ہے کہ پچھلی جنریشن کی میڈیسن، اب آنے والی میڈیسن سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ مسئلہ انفارمیشن کم ہونے کا نہیں، دستیاب انفارمیشن کو سمجھنے اور پھر حل تلاش کرنے کا ہے۔

کیا ڈاکٹر میڈیکل سکول میں جدید میڈیسن کی انفارمیشن کی دنیا میں سے گزرنا اور مشکل سوشل سوالات کا تجزیہ سیکھتے ہیں؟ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہماری آنے والی دنیا کی جھلک ہے۔ انفارمیشن سے لبریز۔ اس میں سے فیصلے کیسے نکالے جائیں گے؟ آنے والا وقت آپریشنل نہیں، تجزیہ کار فیصلوں کا وقت ہے اور یہ صرف میڈیسن کا مسئلہ نہیں، ہر جگہ کا ہے۔ حکومت کو نظامِ تعلیم کے ساتھ کیا کرنا ہے، صحت کا نظام کیسے بہتر کرنا ہے، پالیسی کے فیصلے کیسے لینے ہیں۔ پچھلی جنریشن کے طریقے آنے والی دنیا میں کام نہیں کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اقتباس ابوظہبی میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ کے پلیٹ فارم سے “مستقبل کی دنیا” کے عنوان سے دی گئی سپیچ سے لیا گیا۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں