باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 29 نومبر، 2023

جغرافیہ کی طاقت (65) ۔ ایتھوپیا ۔ ابی احمد

 


بڑی تبدیلی 2018 میں آئی جب ابی احمد نے اقتدار سنبھالا۔ بیالیس سالہ سابق لیفٹنٹ کرنل تھے جو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کے والد ارومو مسلمان تھے جبکہ والدہ امہارا کی کرسچن۔ ارومو سب سے بڑا قومیتی گروہ تھے لیکن اس سے پہلے کبھی اقتدار میں نہیں رہے تھے۔
ابی احمد کے پہلے چھ ماہ طوفانی تبدیلیوں کے تھے۔ ہزاروں سیاسی قیدی رہا کئے گئے۔ ابی احمد نے 24 رکنی کابینہ میں دس خواتین کو وزیر بنایا۔ صومالی علاقے میں جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔ ان کا ایک اور قدم قومیتی بنیادی پر مخلوط حکومت کو ختم کرنا تھا اور ایک پارٹی قائم کرنا تھا۔ تاہم، اس اقدام نے بعد میں ٹائگرے کے ساتھ خانہ جنگی کے بیج بوئے کیونکہ ٹائگرے کی اشرافیہ نے اس سے انکار کر دیا تھا۔
جو تبدیلی سب سے بڑی تھی، اس کی رفتار نے سب کو حیران کر دیا۔ اقتدار میں آنے کے چند ہفتوں میں ہی اعلان کر دیا کہ ایتھوپیا ایریٹریا کے ساتھ جنگ ختم کر رہا ہے۔ ایک مہینے بعد وہ ایریٹریا کے دارالحکومت میں تھے جہاں پر وہ صدر افورکی کو ائیرپورٹ پر گلے لگا رہے تھے۔  بیس سال تک حالت جنگ میں رہنے کے بعد صلح کا معاہدہ ہوا۔ تجارت، سفارت اور امن لوٹ آئے۔ ابی احمد کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایتھوپیا کے اندر امن قائم کرنا زیادہ مشکل رہا۔ بہت سے لوگ ناراض تھے۔ بہت سے دشمن تھے۔ کئی کے لئے سیاست طاقت اور دولت حاصل کرنے کا ذریعہ تھا۔ اور سب سے خطرناک قومیت پرست تھے۔ ابی احمد ایتھوپیا کو کثیر قومیتی ملک بنانا چاہ رہے تھے۔
ان کی حکمرانی میں نو الگ علاقوں میں قوم پرستوں کی طرف سے جھگڑے پھوٹ پڑے۔ اور اگلے کئی مہینوں نے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی تھی جبکہ بے گھر ہونے والے تیس لاکھ ہو چکے تھے۔
ابی احمد نے پرانی سیاستدانوں کو منظر سے حذف کیا تھا۔ اور خاص طور پر ٹائگرے تھے جو کہ ملک پر حاوی رہے تھے۔ میڈیا پر پابندیاں ہٹائے جانے کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ الگ قومیتوں کے لوگ سوشل میڈیا اور ریڈیو پر دوسرے گروہوں کے خلاف زہریلے بیان دینے میں بھی آزاد ہو گئے۔ یہ وہ حالات تھے جن کی وجہ سے پھر خون بہنے لگا۔ قومیتوں کی آپس میں پرانی نفرت تھی جو ختم نہیں ہوئی تھی۔ ٹائگرے میں جنگ شروع ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے مسائل صدیوں پرانے تھے۔ طاقت ہمیشہ کسی ایک قومیت کے پاس رہی تھی اور باقی فیصلہ سازی سے الگ رکھے جاتے تھے۔ مرکز کی مضبوط قیادت پر بھروسہ نہیں کیا جاتا تھا اور طاقتور علاقوں سے مرکز خوف کھاتا تھا۔ ابی نے اس کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ اقتدار میں آنے سے قبل تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ “ہمیں انتخاب کرنا ہے۔ اور میری نظر میں واحد درست انتخاب یہ ہو گا کہ ہم متحد ہو جائیں۔ اس کا متبادل یہ ہے کہ ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں”۔
ایتھوپیا کے سرحدی علاقوں کو ہمیشہ طاقت کے ذریعے کنٹرول میں رکھا گیا ہے۔ قوم پرستوں کو ایتھوپیا کے قومی دھارے میں لانا چیلنج رہا ہے۔
ایسا ماحول قائم کرنا جس میں لوگ خود کو پہلے ایتھوپین سمجھیں اور بعد میں کسی قومیت کا فرد ۔۔ ریاست نے اس پالیسی کیلئے کوشش کی ہے۔ اس کو ایتھوپیاونٹ کہا جاتا ہے۔ یہ پراجیکٹ اس پیغام کو دینے کے لئے ہے کہ سارے ایتھوپین شہری ایک ہیں۔ کرسچن اور مسلمان مذہبی راہنماؤں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اتحاد اور یکجہتی کا پرچار کریں۔ ملک کو قومیت کی بنیادوں پر انتظامی حصوں میں تقسیم کرنا عدم اعتماد کی ایک وجہ ہے اور ملک کو کمزور کرتا ہے لیکن ایسا نہ کیا جائے تو بغاوت کھڑی ہو جاتی ہے اور یہ بھی ملک کو کمزور کرتا ہے۔ یہ نازک توازن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان تمام مسائل کے باوجود ایتھوپیاونٹ کا احساس موجود ہے۔ اور قومی مسائل پر اتفاق رائے بھی ہے۔ خاص طور پر بیرونی حملہ آوروں کے خلاف۔ دریائے نیل پر بنے Grand Ethiopian Renaissance ڈیم کے معاملے پر۔ کھیلوں میں کامیابیوں پر۔ اولمپک میں ہیل جبرسلاسی، تیرونیش ڈبابا اور ٹکی گیلانا جیسے گولڈ میڈلسٹ کے بارے میں۔ قومی یکجہتی کے جذبات وقت اور جگہ کے ساتھ بنتے اور بگڑتے ہیں۔ اور کسی وقت بھی بکھر سکتے ہیں، جیسا کہ یہ انتیس جون 2020 کو ہوا۔
(جاری ہے)

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں