زندگی پانی سے ہے۔ پانی نہیں تو زندگی نہیں لیکن ایسا کیوں ہے۔ اس کی وجہ اس کا مالیکیولر سٹرکچر اور فزیکل خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے یہ زمین کی تمام زندگی کا یہ محلول ہے۔ یہ دو ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن کے ایٹمز سے بنا ہے۔ اس کا مالیکیولر سٹرکچر ایسا ہے کہ اس کی آکسیجن پر تھوڑا سا منفی چارج ہے اور ہائیڈروجن پر تھوڑا سا مثبت۔ یہی چارج اور اس کی مقدار اور اس کے نتیجے میں بننے والا ایٹم کا سٹرکچر اسے زندگی کی بنیاد بناتا ہے۔
لیکن صرف پانی زندگی کے لئے کافی نہیں۔ زندگی کے لئے اور بھی مالیکیول چاہیئں۔ ڈی این اے کی بات عام طور پر کی جاتی ہے لیکن ڈی این اے کا کام صرف یہ ہے کہ یہ جسم کو بتاتا ہے کہ پروٹین کیسے بنانی ہیں اور جسم کا تمام نظام یہ ان پروٹینز کے پاس ہے۔ آپ چل پھر رہے ہیں، سانس لے رہے ہیں، یہ سب پروٹینز کا ہی کام ہے۔ پروٹین سب سے زیادہ تنوع رکھنے والا مالیکیول ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں آٹھ کروڑ مختلف طرح کی پروٹینز ہیں لیکن اس میں حیران کن بات یہ ہے کہ پروٹینز خود صرف بیس طرح کے مالیکیولز سے بنی ہیں جو ساتھ تصویر میں دئے گیے ہیں۔ یہ امینو ایسڈ ہیں۔ آپ کی ہڈیاں، گردے، ہیموگلوبن سب کچھ ہی صرف ان بیس مالیکیولز کا جوڑ ہیں۔ ان مالیکیولز کو دیکھیں تو ان میں ایک مشترک سٹرکچر نظر آئے گا۔ جسم ان مالیکیولز کو اس مشترک حصے کی مدد سے جوڑتا ہے اور مختلف بلاکس کی لمبی پولیمر زنجیروں کی مدد سے مختلف پروٹینز بنتی ہیں۔ چھوٹی پروٹینز میں سو مالیکیولز جڑے ہیں اور بڑی میں ایک لاکھ اور جن آٹھ کروڑ پروٹینز کا ذکر کیا، وہ صرف ان بیس بلاکس کا ہی جوڑ ہیں، جن کے لنک، سائز اور شکلیں فرق ہیں اور ہر قسم کی زندگی کو بناتے ہیں۔ ڈی این اے کا کام زندگی کے لئے صرف ایک منیجر کا ہے جو ان کو درست سٹرکچر میں بنانے کی ہدایات دیتا ہے۔ اب ان پروٹین کے سٹرکچرز کو فولڈ ہونا ہے تا کہ یہ کچھ کر سکیں۔ ساتھ لگی تصویر کائناسن نامی پروٹین کی ہے جو اپنا کام کرتی نظر آ رہی ہے (اس کی حرکت مسل فایبر کے اوپر ویسے ہے جیسے پیر آگے پیچھے رکھ کر چلا جاتا ہے)۔ لیکن ان پروٹیز کو فولڈ کرنے کا جادو ہے پانی کا۔ (اس کے لئے ساتھ لگی ڈایاگرام دیکھ لیں)۔ آپ اسے پانی میں ڈالیں گے تو اس کا مالیکیول فولڈ ہو جائے گا اور نکالیں گے تو کھل جائے گا اور اگر یہ فولڈ نہ ہو تو زندگی نہ ہو۔


اس وقت بائیوکیمسٹری کا پیروڈک ٹیبل موجود نہیں لیکن اسے بنایا جا رہا ہے۔ اس میں ایک اور دلچسپ بات یہ کہ ہم جو دوائیاں لیتے ہیں، ان میں بھی یہی ہائیڈروفوبک اور ہائیڈروفیلک یعنی پانی سے دور جانے والی اور پاس آنے والے مالیکیولز کا ملاپ ہوتا ہے ورنہ یہ جسم میں اثر نہ کر سکیں۔ اور ابھی تک میڈیسن کا علم ایمپیریکل بنیادوں پر ہے۔ اس پر ہونے والی تحقیق سے ایک امید یہ بھی کی جا رہی ہے کہ ہم جان سکیں کہ دراصل دوائیاں کام کیسے کرتیں ہیں۔
جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی اس تحقیق کی تفصیل جاننا چاہتے ہوں، وہ اسے پر لکھے جانے والے پیپر یہاں سے دیکھ لیں۔
https://www.bioch.ox.ac.uk/research/mclain
https://www.bioch.ox.ac.uk/research/mclain
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں