باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 16 فروری، 2024

درختوں کی زندگی (12) ۔ سہج رفتار


بہت لمبے عرصے تک مجھے علم نہیں تھا کہ درخت کس قدر سست رفتاری سے بڑھتے ہیں۔ جس جنگل کا میں رکھوالا ہوں، یہاں پر بیچ کے ایسے درخت ہیں جن کا قد تین سے سات فٹ کے درمیان ہے۔ میرا اندازہ تھا کہ ان کی عمر دس سال سے کم ہی ہو گی لیکن پھر میں نےاسے قریب سے جانچنا شروع کیا۔ کمرشل مقاصد کے لئے اگائے گئے جنگلوں سے یہ بہت مختلف تھا۔
کسی درخت کی عمر کا اندازہ لگانے کا آسان طریقہ اس کے شاخ کے node     گننا ہے۔ یہ خفیف سے جھریوں ہوتی ہیں جو کہ کونپلوں کے نیچے ہر سال بنتی ہیں۔ ہر بہار میں شاخ لمبی ہوتی ہے تو یہ نشان چھوڑ جاتی ہے۔ جب شاخ موٹی ہوتی ہے تو ہر انچ کا دسواں حصہ ایک نشان چھپا لیتا ہے۔ ان کو گن کر آپ عمر کا پتا لگا سکتے ہیں۔
جب میں نے ایک نوجوان درخت کا تجزیہ شروع کیا تو معلوم ہوا کہ آٹھ انچ لمبی ٹہنی میں ایسے پچیس نشان موجود ہیں۔ اس کا باریک سا تنا تھا جو کہ آدھ انچ کی موٹائی کا تھا۔ میں نے شاخ کی اس گنتی کو درخت کی عمر پر extrapolate کیا تو معلوم ہوا کہ درخت کی عمر کم از کم بھی 80 سال تھی!! یہ مجھے اس وقت ناقابلِ یقین لگا لیکن جب میں نے قدیم جنگلات میں اپنی تحقیق جاری رکھی تو اب میں اس بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔ یہی نارمل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوجوان درخت یہ شوق رکھتے ہیں کہ وہ تیزی سے بڑھیں۔ اور ایک موسم میں ڈیڑھ فٹ بڑھنا ان کے لئے مسئلہ نہیں۔ لیکن ان کی بدقسمتی کہ ان کی اپنی مائیں ایسا پسند نہیں کرتیں۔ یہ اپنے بچوں کو اپنے موٹے چھتر سے ڈھک دیتی ہیں۔ اور جنگل کے فرش تک صرف تین فیصد روشنی پہنچتی ہے۔ تین فیصد کچھ بھی نہیں۔ اور اتنی کم روشنی کی وجہ سے درخت صرف اتنا فوٹوسنتھیسس کر پاتا ہے کہ خود کو زندہ رکھ سکے۔ بڑھنے کے لئے یا اپنے تنے کو موٹا کرنے کے لئے ایندھن نہیں بچتا۔ اس سخت گیر پرورش سے بغاوت ممکن نہیں کیونکہ توانائی دستیاب نہیں۔ پرورش؟ جی۔ یہ لفظ جان کر استعمال کیا ہے۔ جنگل سے واقف لوگ اس کے بارے میں یہی لفظ استعمال کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر پرورش کا جو طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے، یہ روشنی سے محروم کرنا ہے۔ لیکن اس کا بھلا کیا فائدہ؟ کیا والدین یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی اولاد جلد سے جلد بڑی ہو کر خودمختار ہو؟ درختوں کی دنیا میں اس کا جواب “نہیں” ہے۔ اور سائنس ان سے اتفاق کرتی ہے۔ سائنسدان یہ معلوم کر چکے ہیں کہ وہ درخت جو آہستہ بڑھتے ہیں، طویل عمر پاتے ہیں۔
سست رفتار سے بڑھتے درخت کے اندرونی خلیات چھوٹے ہوتے ہیں اور ان میں ہوا مفقود ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ان میں لچک ہوتی ہے اور یہ طوفان کا آسانی سے مقابلہ کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فنگس سے اچھی مدافعت رکھتے ہیں جس کیلئے پتلے تنے میں گھسنا مشکل ہوتا ہے۔ اور زخمی ہونے کا مقابلہ بھی آسانی سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کو مندمل کرنا آسان ہوتا ہے۔ گلنے سڑنے سے پہلے ان کے اوپر چھال چڑھا لی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوجوان بے صبرے ہوتے ہیں لیکن اچھی پرورش لمبی عمر پانے کے لئے ضروری ہے۔
بلوط اور شفتالو کے درخت اپنی ماؤں کے قریب ہی اگتے ہیں۔ ڈاکٹر سوزین سمارڈ نے درختوں میں ممتا کی دریافت کی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ماں غالب درخت ہے جو کہ دوسروں سے جڑوں کے راستے فنگس کے ذریعے رابطہ بنائے ہوتا ہے۔ یہ اپنی وراثت اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں اور اگلی نسل کی پرورش میں اثرانداز ہوتے ہیں۔
درختوں کے لئے وقت کے سکیل ہمارے جیسے نہیں۔ دو سو سالہ ماں کے پاس کھڑا پچاس سالہ درخت ویسا ہے جیسا کسی چالیس سالہ ماں کے سامنے اس کا ٹین ایجر بچہ۔ ابھی اسے بڑا ہونے میں وقت لگے گا۔ مائیں جڑوں کے ذریعے بچوں کو ساتھ شوگر اور غذائیت بھی بھیجتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اگلی نسل کا وقت آ جائے گا۔ ماں بیمار ہو چکی ہے، اس کا وقت ختم ہونے کو ہے۔ شاید ایک طوفان آیا تھا۔ موسلادھار بارش نے اس کے تنے کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہ کئی ٹن کا بوجھ بردشت نہیں کر سکتا اور ٹوٹ گیا۔ یہ درخت دھڑام سے گر گیا۔ شاید اپنے ایک دو بچوں کو بھی لے گیا۔
اس کے باقی بچوں کو جگہ مل گئی۔ یہ اب کھل کر فوٹوسنتھیسس کر سکتے ہیں۔ درخت موٹے پتے نکالیں گے جو کہ روشنی کو زیادہ تیزی سے توانائی میں بدل سکیں۔
ایک سے تین سال تک یہ سٹیج جاری رہی۔ تمام نوجوان بڑھنا چاہتے ہیں۔ اب اوپر جانے کی باری ہے۔
وہ پیچھے رہ جائیں گے جو اپنے موڈ کے حساب سے دائیں بائیں مڑتے رہے ہیں۔ جو سیدھا اوپر جائے گا، وہ قدآور ہو جائے گا اور باقیوں کو اپنے سائے تلے کر لے گا۔ اور اب جو پیچھے رہ جائے گا، یہ زیادہ عرصہ جی نہیں پائے گا کیونکہ سائے میں یہ اتنی خوراک نہیں بنا پائے گا۔ یہ بالآخر مٹی میں مل جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر جاتے وقت مزید خطرات بھی ہیں۔ چمکدار دھوپ کا مطلب زیادہ خوراک بنانا ہے۔ جو تیزی سے بڑھے گا، اس کی کونپلیں، جو پہلے تلخ تھیں اب شوگر کے زیادہ ہونے کے سبب شیریں ہو جائیں گی۔ اور یہ چرندوں کو دعوت ہے۔ انہیں اچھی کیلوری مل جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھولدار بیلیں بھی اپنی قسمت آزمائیں گی۔ یہ اپنے ڈورے تنوں پر ڈال کر چکر کاٹتی بڑھیں گی۔ سال گزریں گے، ان کے پھول دھوپ میں نہا سکیں گے اور یہ چھال کو زخمی کریں گی۔ درخت کا گلا گھونٹنے لگے گا۔ یہاں پر مقابلہ جاری ہے۔
اگر درخت اپنی چھتری سے سایہ کر لے اور دھوپ کے راستے کو ڈھک دے تو اس کا تنا تاریکی میں چلا جائے گا۔ بیل مرجھا جائے گی لیکن زخم چھوڑ جائے گی۔ لیکن اگر درخت ایسا نہ کر پائے تو بیل کے شکنجے میں جکڑا بدقسمت درخت اپنی موت کی طرف بڑھے لگے گا۔ یہ گر جائے گا اور ہم اس سے چھڑیاں بنا لیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوجوان درخت کو یہ سب رکاوٹیں عبور کرنا ہیں تا کہ یہ خوبصورت قدآور شجر بن سکے۔
بیس سال اور گزر چکے ہیں۔ درخت کی ماں کے مرنے پر جو جگہ خالی ہوئی تھی، وہ پُر ہو گئی ہے۔ باقی نوجوان درختوں کو انتظار کرنا ہے کہ کوئی بڑا ہمسایہ اپنے اختتام کو پہنچے۔ شاید کئی دہائیاں لگیں۔ لیکن ایسا تو ہونا ہی ہے۔
ولی عہد شہزادوں اور شہزادیوں کا بھی وقت آنا ہے۔
جنگل میں زندگی اپنی رفتار پر جاری ہے۔
(جاری ہے)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں