باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 3 ستمبر، 2018

کوانٹم فیلڈ تھیوری ۔ آسان الفاظ میں


ہم سب اور ہماری آس پاس کی ہر چیز بنیادی طور پر کس سے بنے ہیں۔ ہزاروں سال پرانے اس سوال کے جواب کی تلاش میں دیکھتے ہیں کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ وکٹورین دور میں عناصر کو بنیادی بلڈنگ بلاک سمجھا جاتا تھا۔ پہلی بار ایٹم کا تصور تھامپسن نے دیا۔ پھر رتھرفورڈ نے نظریہ پیش کیا کہ ایٹم خود بھی نیوکلئیس اور الیکٹران سے مل کر بنا ہے۔ اس کے بعد ہمیں پتا لگا کہ نیوکلئیس خود بنیادی ذرہ نہیں بلکہ پروٹون اور نیوٹرون پر مشتمل ہے۔ ستر کی دہائی میں ہم نے ڈھونڈ نکالا کہ پروٹون اور نیوٹرون خود بنیادی نہیں بلکہ کوارکس سے ملکر بنے ہیں۔ کوارکس دو قسم کے ہیں۔ اپ کوارک اور ڈاؤن کوارک۔ ہم نے ان سے چھوٹے ذرات کا مشاہدہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ جتنی بھی چیزوں کو ہم جانتے ہیں، وہ بنیادی طور پر اپ کوارک، ڈاؤن کوارک اور الیکٹران سے مل کر بنی ہیں۔ اس پر غور کریں تو بڑا حیران کن اور پر لطف ہے کہ ہم خود، سامنے گلاس میں رکھا پانی، کمرے کی ہوا یا باغ میں اگا پھول صرف ان تین طرح کے ذرات کی مختلف ترتیب ہیں۔
یہ وہ کہانی ہے جو فزکس میں انڈرگریجوئیٹ تک پڑھائی جاتی ہے مگر اس میں ایک مسئلہ ہے۔ وہ یہ کہ یہ پورا سچ نہیں۔ ایسا اس لئے بتایا جاتا ہے کہ سمجھنا آسان ہے۔ فزکس کے آج کے بہترین نظریات کی بنیاد یہ ذرات نہیں۔ بلکہ ان نظریات کی بنیاد میں کوئی ذرہ ہے ہی نہیں۔ فطرت کے بنیادی بلڈنگ بلاک فیلڈز ہیں جو فلوئیڈ جیسے ہیں اور تمام کائنات میں پھیلے ہیں اور ان میں دلچپسپ و عجیب طریقے سے ہر وقت لہریں رہتی ہیں۔ ہماری آس پاس پائی جانے والی اصل حقیقت اور بنیاد یہی ہے۔
مائیکل فیراڈے پہلی بار یہ تصور دیا تھا کہ الیکٹرک اور میگنیٹک فیلڈ ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ یہ تصور ہر کسی نے پڑھا ہوتا ہے مگر یہ فزکس کے اہم ترین تصورات میں سے ہے۔ دو مقناطیس لیں اور ان کے مخالف پولز کو ایک دوسرے کے قریب لے کر آئیں۔ آپ خود محسوس کر لیں گے کہ کوئی حقیقی شے ہے جو ایک دوسرے سے دور دھکیل رہی ہے جو نظر نہیں آتی مگر فزیکلی موجود ہے اور یہ شے مقناطیسی فیلڈ ہے۔ میکسویل نے انیسویں صدی کے آخر میں یہ ثابت کر دیا کہ روشنی کا تعلق بھی اسی فیلڈ سے ہی ہے۔
کوانٹم مکینکس سے ہمیں علم ہوا کہ نیچر اس سے بہت مختلف ہے جیسا کہ ہمارا خیال ہے۔ کوانٹم مکینکس میں توانائی پیکٹس میں ہے جبکہ فیراڈے کا فیلڈ کا تصور ایسا نہیں تھا۔ جب ہم ان دونوں نظریات کو ملاتے ہیں تو جو نتیجہ نکلتا ہے، اسے کوانٹم فیلڈ تھیوری کہتے ہیں۔ اس ملاپ کا روشنی پر اطلاق کریں تو اس کا مطلب یہ کہ روشنی الیکٹرومیگنٹک فیلڈ پر مرتعش ایک چھوٹا ناقابلِ تقسیم پیکٹ ہے جسے ہم فوٹون کہتے ہیں۔ اصل جادو یہ ہے کہ یہی تصور کائنات کے ہر قسم کے ذرے پر لاگو ہے۔ آپ کے کمرے (اور تمام کائنات میں) اسی طرح ایک اور فیلڈ پھیلا ہوا ہے جسے الیکٹران فیلڈ کہتے ہیں۔ اس کی لہریں کوانٹم مکینکس کے اصولوں کے تحت پیکٹ بن جاتی ہیں جنہیں الیکٹران کہا جاتا ہے۔ تمام کائنات کے الیکٹران بنیادی ذرہ نہیں بلکہ اس فیلڈ کی لہریں ہیں۔ جیسے سمندر کی لہریں ایک ہی فیلڈ پر ہونے والے ارتعاش ہیں، ویسے ہی تمام کائنات کے الیکٹران ایک ہی فلوئیڈ پر ہونے والا ارتعاش ہیں۔
ایسے دو اور فیلڈ ہیں جسے ہم اپ کوارک فیلڈ اور ڈاؤن کوارک ٖفیلڈ کہتے ہیں اور ان کے ارتعاش کو اپ کوارک اور ڈاؤن کوارک۔ اسی طرح ہر قسم کے ذرات اپنے فیلڈ پر پائے جانے والے لہروں کے پیکٹ ہیں اور یہی کائنات کا اصل بلڈنگ بلاک ہے۔
جسے ہم خلا کہتے ہیں، وہ ہر وقت ان فیلڈز سے بھرا ہے اور یہ فیلڈ کہیں بھی اور کبھی بھی ساکن نہیں بلکہ مسلسل حرکت میں ہیں۔ خلا میں ان فیلڈز میں بنتی لہروں کو ویکیوم فلکچوئیشن کہتے ہیں اور مختلف تجربات سے ان کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ غیر مرئی نہیں یا ریاضیاتی شے نہیں، حقیقی چیز ہیں۔ اس کی ریاضی اور ہونے والے مشاہدات میں اسقدر زبردست مطابقت ہے جو سائنس کے کسی بھی اور شعبے میں کم ہی نظر آتی ہے۔
تین ذرات، جن کا پہلے ذکر آیا، ان کے علاوہ چوتھا پارٹیکل نیوٹرینو ہے۔ جب سے آپ نے یہ آرٹیکل پڑھنا شروع کیا ہے،کھربوں نیوٹرینو آپ کے جسم کے آرپار ہو کر گزر چکے ہیں۔
قدرت میں جتنے بھی پارٹیکل ہیں، ان کی دو اور کاپیاں بھی پائی جاتی ہیں جو ویسی ہی خصوصیات رکھتی ہیں، صرف ان سے بھاری ہیں۔ اس لئے ذرات والے فیلڈز کی کل تعداد نکالیں تو بارہ بنتی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
الیکٹران
موؤن
ٹاؤ
الیکٹران نیوٹرینو
موؤن نیوٹرینو
ٹاؤ نیوٹرینو
اپ کوارک
سٹرینج کوارک
بوٹم کوارک
ڈاؤن کوارک
چارم کوارک
ٹاپ کوارک
ہر بنیادی ذرہ اپنی دو بھاری کاپیاں کیوں رکھتا ہے، قدرت کے اس اسرار سے ابھی ہم لاعلم ہیں مگر یہ بھاری ذرات ہمیں پارٹیکل کولائیڈر میں نظر آتے ہیں۔
ان کے علاوہ چار قوتیں ہیں۔ گریویٹی، الیکٹرومیگنیٹک فورس، کمزور نیوکلیائی فورس اور طاقتور نیوکلیائی فورس۔ ہر فورس کا تعلق ایک فیلڈ سے ہے۔ الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کا پہلے ذکر ہوا۔ نیوکلیائی فیلڈز کا تعلق گلیون فیلڈ اور ڈبلیوزی بوزون فیلڈ سے ہے۔ گریویٹی کا تعلق جس فیلڈ سے ہے، اس کو سپیس ٹائم کہتے ہیں۔ اس فیلڈ کی تفصیل تھیوری آف ریلیٹیوٹی میں ہے۔
اب ان کی نظر میں فزکس کا کوئ ایک سرا پکڑ لیں۔ الیکٹران کی حرکت الیکٹران فیلڈ کا ارتعاش ہے جو پھر الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کے ارتعاش کا باعث بنتا ہے جو پھر کوارک فیلڈ سے تعامل کرتا ہے اور ان تمام لہروں کا باہمی رقص کائنات ہے۔ اس تصور سے نکلنے والی تھیوری اس وقت تک فزکس کی کامیاب ترین تھیوری ہے جسے سٹینڈرڈ ماڈل کہتے ہیں۔
ان سب کے علاوہ ایک فیلڈ اور ہے جسے ہگز فیلڈ کہتے ہیں۔ تھیوری میں اس کے بارے میں پیٹر ہگز نے بتا دیا تھا مگر پچاس سال بعد اس کا مشاہدہ سرن میں ہونے والے تجربے سے ہوا۔ یہ سٹینڈرڈ ماڈل کا آخری بلاک تھا۔ سرن لارج ہیڈرون کولائیڈر میں ہگز فیلڈ کے مشاہدے نے سٹینڈرڈ ماڈل کے آخری ٹکڑے کو مکمل کر دیا۔ ہگز فیلڈ ہے جس کی وجہ سے کائنات میں ماس ہے۔ جنہیں ہم ذروں کی خصوصیات کہتے ہیں، وہ ان سترہ فیلڈز کا آپس میں ہونے والے ملاپ کا طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر الیکٹران فیلڈ کے الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ پر ہونے والے اثر کو چارج اور اس کے ہگز فیلڈ پر ہونے والے اثر کو الیکٹران کا ماس کہتے ہیں۔
اس سب سے نکلنے والی مساوات جو کائنات کی ہر چیز کا پتہ دیتی ہی، وہ منسلک ہے۔ صرف ایک مسئلہ ہے کہ اس مساوات کی مکمل سمجھ ابھی دنیا میں کسی کو بھی نہیں۔ مگر یہ مساوات آج تک کے ہونے والے تمام فزکس کے تجربات کو سمیٹے ہوئے ہے جس میں سیب کے گرنے، کائنات کے پھیلاؤ، مقناطیس کی خصوصیات، تابکاری، لیزر، نیوکلئیر ری ایکشن، مادے کی تمام خصوصیات اس مساوات کے کسی نہ کسی حصے میں موجود ہے۔
ابھی کئی سوال غیر حل شدہ ہیں۔ اس وقت ہم کئی تجربات کر رہے ہیں تا کہ اس ماڈل سے آگے بڑھا جا سکے۔ سب سے اہم تجربات سرن لیب میں ہو رہے ہیں۔ ہم نے 2012 میں ہگز بوزون کا پتہ لگایا تھا۔ اس کے بعد یہ دو سال بند رہا۔ 2015 میں اپ گریڈ ہونے پر دوبارہ کھلنے پر نئے تجربات شروع ہوئے اور دگنی توانائی کے ساتھ اب تجربات جاری ہیں۔ ان تجربات سے ہگز فیلڈ کی سمجھ بہتر ہوئی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ہم سٹینڈرڈ ماڈل سے آگے بڑھ سکیں۔ ہماری امید یہ تھی کہ کچھ فیلڈز کو یکجا کیا جا سکے گا۔ تمام پارٹیکل فیلڈ ڈیراک کی مساوات کے مطابق ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید ہم ان کو یکجا کر سکیں یا پھر ہم کچھ فورس فیلڈز کو یکجا کر سکیں یا ذرات اور قوت والے فیلڈز کو یکجا کر سکیں جسے سپر سمٹری تھیوری کہتے ہیں۔ یا ان تمام فیلڈز کو ایک ہی بنیادی بلاک میں یکجا کر لیں، جس کی تھیوری کو سٹرنگ تھیوری کہا جاتا ہے۔
اگرچہ تھیوریٹیکل فزکس میں ان نظریات پر تیس سال سے کام ہو رہا ہے، مگر تجربے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارے پاس اپنے بہت سارے خیالات کو ٹیسٹ کرنے کے لئے لارج ہیڈرون کولائیڈر ہے۔ دو سال سے یہ تجربہ گاہ بہترین طریقے سے چل رہی ہے اور پچھلے دو برس میں ابھی تک اس نے ہمارے کسی تمام خوبصورت خیالات میں سے کسی ایک کی بھی تصدیق نہیں کی۔
فزکس میں آگے کیا ہے، اس پر اتفاق نہیں۔ مگر سرن میں کچھ نہ ملنے پر سائنسدان کچھ پریشان ضرور ہیں۔ اس بارے میں تین آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ تجربات جاری رکھے جائیں اور اگلے سالوں میں کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ ایسا ممکن ہے لیکن اگر اگلے دو سے تین برسوں میں کچھ نہ ملا، تو شاید پھر کچھ بھی نہ مل سکے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ہمیں دس گنا بڑی مشین کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اتنی مہنگی مشین بنانے کے لئے صرف چین وہ ملک ہے جس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس قدر رقم خرچ کر کے بیجنگ کے شمال میں ایسی مشین بنانے کو تیار ہے مگر اس کے لئے کم سے کم بیس برس انتظار کرنا پڑے گا۔ تیسری رائے یہ ہے کہ ہم اپنی بنائی ہوئی مساوات کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ نہیں سکے اور غلط سمت میں سوچ رہے ہیں۔ آگے کیا ملتا ہے، اب اس کا انتظار کرتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں