ایک شخص یا جانور جس میں خوف کی حس نہ ہو، وہ زندہ نہیں رہے گا، کیونکہ خوف ہمیں مہلک غلطیاں کرنے سے بچاتا ہے۔ شاید آپ اس گھبراہٹ والے احساس سے واقف ہوں جو آپ کو اس وقت ہوتا ہے جب آپ کسی اونچی جگہ پر ہوتے ہیں، جیسے کہ اونچی عمارت چھت کی منڈیر پر۔ ایک سنسنی والا احساس اور جلد از جلد واپس نیچے اترنے کی زبردست خواہش۔ یہ بہت معقول ہے۔ یہ فطری جبلت ہمیں اور ہمارے آباؤ اجداد کو اونچی چٹانوں سے گرنے سے بچاتی رہی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ جانور نہ صرف خوف کا ایسا احساس رکھتے ہیں اور خطرات کو پہچانتے ہیں بلکہ اس انفارمیشن کی مدد سے طویل مدت کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ 1974 میں جنیوا میں لوگوں نے شکار پر پابندی لگانے کے حق میں ووٹ دیا۔ بڑے ممالیہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ شکاری ہیں۔ اور چونکہ شکاری انسان ہیں، اس لئے جانور انسانوں سے سب سے زیادہ خوف کھاتے ہیں۔ اور دو ٹانگوں کی مخلوق کی آمد کی خبر پاتے ہیں گھنے درختوں یا جھاڑیوں کی آڑ لیتے ہیں۔ اور صرف تاریکی میں ہی بستی کے قریب آنے کی جسارت کرتے ہیں۔ تاہم، جب سے جنیوا میں شکار پر پابندی لگی، اگلے برسوں میں جنگلی جانوروں کا رویہ تبدیل ہونے لگا۔ انسانوں سے خوف اترنے لگا اور وہ دن میں بھی نظر آنے لگے۔ اور یہ رویہ پہلے جنیوا اور پھر آس پاس کے علاقوں تک پھیلنے لگا۔ فرانس میں بھی یہی رویہ نظر آیا۔ خزاں میں شکار کا موسم شروع ہوتا ہے۔ اس موسم کی آمد ہوتے ہی شکاری کتوں کے ساتھ شکاریوں کی آمد شروع ہوتی ہے۔ اور جلد ہی جنگلی سور بیترین تیراک بن گئے۔ شکاریوں کی آمد کے ساتھ ہی یہ تیر کر دریا رہائن کی دوسری طرف چلے جاتے جو کہ جنیوا تھا۔
تیرنے والے سور تین چیزیں دکھاتے ہیں۔ اول، وہ خطرے سے آگاہ ہیں اور پچھلے سال کے شکار کو یاد رکھ سکتے ہیں جب گولیوں کی بوچھاڑ سے مارے گئے خاندان کے افراد کو مردہ یا زخمی حالت میں چھوڑنا پڑا تھا۔ دوم، انہیں خوف کا احساس ہے، کیونکہ یہی چیز انہیں اس علاقے کو چھوڑنے پر مجبور کرتی ہے جہاں وہ پوری گرمی میں آرام سے رہتے رہے ہیں۔ سوم، وہ اس بات کو یاد رکھنے کے قابل ہونا چاہیے کہ وہ دریا کے پار (جنیوا میں) محفوظ رہیں گے۔ چار دہائیوں سے زیادہ کے طویل عرصے میں، یہ سفر ان جانوروں کی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہونے والی ایک روایت بن گیا ہے۔ خطرے کے وقت، حفاظت کے لیے دریا پار کیا جائے۔ ان کے آباؤ اجداد نے 1970 کی دہائی میں آزمائش سے یہ دریافت کیا۔ ان میں خود کو محفوظ رکھنے کا احساس واضح طور پر بہت اچھی طرح سے ان میں موجود ہے۔
ہم برقی باڑ کی مثال سے جانتے ہیں کہ جانور صرف کسی چیز کو یاد کر کے خوفزدہ ہو سکتے ہیں۔ اگر جانور برقی باڑ کو ایک یا دو بار چھو لیں تو پھر اس کے قریب نہیں جاتے۔ آپ جانتے ہیں کہ کس طرح مخصوص گانے، بو، یا تصاویر آپ کے لاشعور دماغ کی گہرائیوں سے پرانی خوشگوار یا ناگوار یادیں تازہ کر سکتی ہیں؟ یہی طریقہ کتوں کے ساتھ بھی کام کرتا ہے۔ اگر آپ کے پاس پالتو کتا ہے تو آپ کو شاید تجربہ بھی ہوا ہو گا۔ مثلاً، ہو سکتا ہے کہ آپ کا کتا ڈاکٹر کے پاس جانے سے گھبراتا ہوں۔ وہاں پر سوئی چبھوئے جانے کا ناگوار تجربہ اسے یاد ہو اور وہ اس وجہ سے وہ گھبرا رہا ہو۔ ہمارے پاس اس بات کے اچھے شواہد موجود ہیں کہ جانور خوف محسوس کرتے ہیں جبکہ کتوں کے بارے میں ایسا تجربہ ایک اور چیز بھی بتاتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس گئے ہوئے ایک سال سے زائد ہو جانے کے بعد بھی اس خوف کی موجودگی یہ بتاتی ہے کہ اس کے پاس طویل مدتی یادداشت موجود ہے۔
(جاری ہے)
Post Top Ad
جمعہ، 28 مارچ، 2025
حیوانات کی دنیا (35) ۔ خوف
Tags
Inner Life of Animals#
Share This
About Wahara Umbakar
علم کی تحریریں۔ مجھے امید ہے کہ میری یہ کاوش آپ سب کو پسند آئے گی اگر آپ نے میری اس کاوش سے کچھ سیکھا ہو یا آپ کے لئے یہ معلومات نئی ہوں تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔ شکریہ
۔
وہارا امباکر
لیبلز:
Inner Life of Animals
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں