باتیں ادھر ادھر کی

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعہ، 3 نومبر، 2023

جغرافیہ کے قیدی (77) ۔ خلا ۔ آخری سرحد


ناسا کی خلاباز کیرن نائیبرگ کا کہنا ہے کہ “اگر کسی طرح سے ہر انسان زمین کے گرد ایک چکر کاٹ لے تو میرے خیال میں دنیا بہت بدل سکتی ہے”۔ کیرن نے یہ بات ماحولیات کے حوالے سے کی تھی لیکن یہ سیاست اور سفارت کے لئے بھی غلط نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستقبل کیا ہو گا؟ ہمیں معلوم نہیں۔ لیکن ہم متبادل مستقبل کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر انسان خلا میں تعاون کا جذبہ اپنا سکیں تو مستقبل اس سے بہت مختلف ہو سکتا ہے جس طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔ اس متبادل مستقبل میں امریکی حکومت ناسا کیلئے چین کے ساتھ کام کرنے پر پابندی اٹھا لے۔ جاپان اور جنوبی کوریا اپنے تلخ ماضی سے آگے بڑھ کر علاقائی رفاقت بنا سکتے ہیں جو کہ امریکہ، چین اور دوسرے ممالک کے ساتھ ملکر بڑی پارٹنرشپ بن سکتی ہے۔
دس سالوں میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بیس کمروں کا ہوٹل بن جاتا ہے جس میں مہمان جما کر تاروں بھرے آسمان میں خشک کئے گے کھانوں کا لطف لے سکتے ہیں۔ ایک کروڑ ڈالر فی ہفتہ کی قیمت ادا کر کے رہائش کے علاوہ خلا میں چہل قدمی بھی کی جا سکتی ہے۔ اور یہاں سے پچاس کلومیٹر دور قائم کردہ عالمی لیبارٹری میں جایا جا سکتا ہے۔
اس لیبارٹری میں 2033 میں ہونے والی دریافت نے الزائمر کا علاج ممکن کر دیا ہے۔ چاند پر قائم نئی کالونی تک ویڈیو کال کی جا سکتی ہیں۔ اس کالونی میں بارہ لوگ ہیں جو یہاں کام کرتے ہیں۔
بیس سال میں لو ارتھ آربٹ میں خلائی جہازوں میں ایندھن بھرا جاتا ہے۔ اس کو دور دراز کے سفر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ چاند پر لینڈ کرتے ہیں۔ یہاں تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے شمسی توانائی کیلئے پینل بنائے جاتے ہیں جن سے حاصل کردہ توانائی بین الاقوامی اڈوں کو سپلائی ہوتی ہے۔ اور یہ لمبے سفروں کے لئے پڑاؤ ہیں۔
مریخ پر جانے والے عملے میں سے کچھ سفر کی چھ ماہ کی طوالت پر بڑبڑاتے ہیں۔ لیکن انہیں یاد کروایا جاتا ہے کہ یہ نو کروڑ کلومیٹر دور ہے۔ اور یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب برطانیہ سے برصغیر کا سفر نو مہینے لیتا تھا۔
جب یہ یہاں سے روانہ ہوئے تو راستے میں چینی اور عرب امارات کے خلائی سٹیشن ہیں جو کہ چاند کی پرلی طرف ہیں۔ کچھ خلائی جہاز کا عملہ صرف روبوٹ پر مشتمل ہے جو کہ تجربات کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
کئی شہابیوں پر کان کنی کی جا رہی ہے۔ بھاری مقدار میں وہ دھاتیں زمین تک منتقل ہو رہی ہیں جو کبھی زمین پر نایاب ہوا کرتی تھیں۔ جب میڈاس شہابیہ دریافت ہوا تھا تو زمین پر سونے کی قیمت اسی فیصد گر گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم 2070 میں ہیں۔ مریخ پر 100 لوگوں کا عملہ سیارے کی ساخت بدلنے (terra foring) کی سنجیدہ کوششوں میں مگن ہے۔ اس سے چھ سال قبل، سائنسدانوں نے آخرکار وہ فارمولا نکال لیا تھا کہ کس طریقے سے سیارے کو گرم کر کے اس سے گرین ہاؤس گیسیں خارج کی جا سکتی ہیں۔ زمین سے بھاری مقدار میں کلوروفلوروکاربن یہاں لائے گئے تھے۔ ان کی مدد سے وہ چین ری ایکشن شروع ہوا تھا جو سورج کی دھوپ سے حرارت قید کر سکتا تھا اور یہاں کی فضا بدل سکتا تھا۔ یہ ٹیم توقع کر رہی ہے کہ اگلے پندرہ سال میں یہ ممکن ہو جائے گا کہ خلائی سوٹ کے بغیر مریخ کی سطح پر چلا جا سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب کچھ وہ ہے جس کی پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ اس سے آگے جتنا جایا جائے، یہ سائنس فکشن سے زیادہ قریب تر ہوتا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب 2085 آ چکا ہے۔ خلا میں دور تک سفر کرنے کا ایک اچھوتا خیال اصل ہو چکا ہے۔ جہاز کے سامنے چھوٹے ہائیڈروجن بم پھوڑے جاتے ہیں۔ جہاز سے اتنا دور کہ یہ محفوظ رہے۔ اور پھر گریویٹی ویوز کی مدد سے تیزرفتار ایکسلریشن ممکن ہو جاتی ہے۔ پلوٹو تک تو انسان کو پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ دو سال کا سفر تھا۔ لیکن قریب ترین ستارے پروگزیما سنچوری تک اس طریقے سے پہنچنے میں بیس ہزار سال لگیں گے۔
عملے کو “جما” کر لے جانے کی باتیں ختم ہو چکی ہیں۔ اگلا منصوبہ یہ تھا کہ ایمبریو لے جائے جائیں جن کی دیکھ بھال روبوٹ اور مصنوعی ذہانت کرے۔ اس کو سیاراتی اخلاقیات کی کمیٹی نے مسترد کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات کی وسعت بے کراں ہے۔ اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ممکنات کی وسعت بھی۔ اور اسی وجہ سے سائنس فکشن اتنی مزیدار ہوتی ہے۔
ہمارا علم ہمیں آزاد بھی کرتا ہے اور قید بھی۔ آزاد اس لئے کہ یہ ہمیں ستاروں سے روشناس کرواتا ہے۔ ہماری تاریخ میں ابھی کچھ عرصہ پہلے کی ہی بات ہے کہ ستارے پرسرار اور نامعلوم تھے۔ زمین سے نکلنا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ قید اس لئے کہ صرف جان لینا اس بات کو ممکن نہیں کرتا کہ خلا کی ان ہیبت ناک وسعتوں کو پاٹ سکیں یا فطری قوانین سے آزاد ہو سکیں۔ علم ہمیں اپنی ہتھکڑیوں سے بھی روشناس کرواتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے لئے نظام شمسی سے نکلنا انتہائی دشوار ہو گا۔ ہمارے پڑوسی ستارے سے روشنی زمین تک پہنچنے میں سوا چار سال لگتے ہیں۔ اور جب ہم اینڈرومیڈا کہکشاں کو دیکھتے ہیں تو یہاں سے روشنی کا سفر پچیس لاکھ سال ہے۔
ڈیپ سپیس کے سفر کے مسائل کو ابھی ہم سائنس فکشن کے لکھاریوں اور آئندہ کی نسلوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کائنات میں ہمارے سوا کوئی اور بھی ہے؟ اس قدیم سوال کے جواب کا کسی کو علم نہیں۔ اگر کوئی ہے تو ہم اسے ایک تحفہ بھیج چکے ہیں۔ یہ Pioneer 10 ہے جس کو 1972 میں خلا میں بھیجا گیا تھا۔ اس سے آخری خبر جنوری 2003 میں آئی تھی۔ جب تک اس کی پاور سورس ختم نہیں ہو گئی تھی۔  اس کے ساتھ چھ ضرب نو انچ کی تختی ہے۔ اس میں نقشہ یہ بتاتا ہے کہ “ہم یہاں ہیں”۔
اس تختی کو فرینک ڈریک اور کارل سیگن نے ڈیزائن کیا تھا اور پلسارز کی مدد سے ہماری جگہ بتاتا ہے۔ لیکن یہ نقشہ صرف چند ملین سال کے لئے کارآمد ہے جس وقت تک کہکشاؤں کے جھرمٹ شفٹ ہو چکے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلائی مہم جوئی ابھی ابتدا میں ہے اور ابھی ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ کس سمت میں جائے گی۔ زمین کی طرز پر الگ ریاستوں کے نظام جن کے درمیان جنگ و جدل رہے گی؟ یا پھر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے گا کہ خلا کے مشکل چیلنج انسانیت کیلئے مشترک ہے؟
ابھی تک ہم ایک پیٹرن پر چلتے رہے ہیں۔ زمین، سمندر یا زیرِزمین ۔۔۔ عظیم دریافتوں کے نتائج مقابلے اور طاقت کی کشمکش کی صورت میں نکلا ہے۔ جس میں جیتنے والا قوانین اور اصول طے کرتا ہے۔
ہم اپنی تاریخ کے اس موڑ پر آ چکے ہیں جہاں اپنے تمام باہم تنازعات اور ناانصافیوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح کے چیلنج ہمارے آگے کھڑے ہیں۔ مثلاً، موسمیاتی تبدیلی ایسا ایک چیلنج ہے۔   
خلا میں توانائی یا خام مال کے لامحدود وسائل اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ یہ کام اکٹھے ملکر کیا جائے۔ نتیجے میں کاربن کی آلودگی کا کم ہونا اور معیارِ زندگی بلند ہونا ایسی چیزیں ہیں جو سب کو فائدہ دیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین پر وسائل محدود ہیں اور ان کے لئے مقابلہ تنازعات اور جنگ کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ ہمارے اوپر ایک شہابیہ ہے جس کا نام 3554 Amum ہے۔ اس میں پائے جانے والے کوبالٹ، نکل، لوہے اور دوسری دھاتیں دو سو کھرب ڈالر کی مالیت کی ہیں۔ اور یہ ان گنت شہابیوں میں سے ایک ہے۔
یہ بچگانہ سوچ ہو گی کہ اگر کوئی ملک یا کمپنی اس پر لینڈ کرتی ہے تو وہ اس سب کو دنیا میں مفت بانٹ دے گی۔ لیکن تعاون کے معاہدے ہو سکتے ہیں جس میں علم اور منافع تقسیم کرنے کا طریقہ نکالا جا سکے۔ منافع کا ایک حصہ آگے بڑھایا جا سکے۔ اس کی ایک مثال عظیم الشان شمسی پینل ہو سکتے ہیں جنہیں لو ارتھ آربٹ میں پوزیشن کیا جائے۔ یہ سورج کی توانائی کو شمسی فارم میں منتقل کریں اور چوبیس گھنٹے توانائی پیدا کریں۔ ان سب کو بنانے کا بجٹ حصہ بقدر جثہ کے فارمولے پر بنایا جا سکے اور دنیا اس سے مستفید ہو کر اپنے توانائی کے مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کر سکے۔
ایسے آئیٰڈیا بے شمار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور توجہ طلب پروگرام شہابیے اور دوسرے اجسام کو دریافت کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کا ہے جو کہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ 1908 میں سائبیریا میں ایسا ایک شہابیہ گرا تھا جس نے سینکڑوں مربع کلومیٹر جنگل کو تباہ کر دیا تھا۔ اس سے بڑے آبجیکٹ مدار میں موجود ہیں۔ ڈائنوسار انہیں نہیں دیکھ سکے تھے۔ ہم نہ صرف دیکھ سکتے ہیں بلکہ اس بارے میں کچھ کر بھی سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لازمی نہیں کہ خلا میں تعاون زمین پر بھی دوستی کروا دے۔ امریکی خلاباز روسی خلائی جہازوں پر سپیس سٹیشن جاتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کے تناؤ میں اس سے کمی نہیں ہوئی۔ اور سرد جنگ کے عروج پر 1975 میں سوئز اور اپالو کا مصافحہ اس بات کا ثبوت ہے کہ برے وقت بھی ہماری تعاون کرنے کی صلاحیت کو ختم نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلا سے نظر آنے والے اس مدہم نیلے نقطے کا نظارہ “ہم” بمقابلہ “وہ” کے دائمی جھگڑے کو دھیما کر دیتا ہے۔ خلا ہمیں موقع دیتی ہے کہ اس کی وسعت کا ادراک کر کے اپنے ذہنوں کو وسعت دیں۔
انسان ہمیشہ رات کی تاریکی میں آسمان تکتے رہے ہیں۔ خواب دیکھتے رہے ہیں۔ ہم اب زمین کی قید توڑنے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا ہم ملکر آگے بڑھ سکیں گے؟ یا پھر زمین کا جغرافیہ ہمیں خلا میں بھی قید کر لے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کائنات کی ایک منفرد اور انوکھی مخلوق ہیں۔ تصور کر لینا، خواب دیکھ لینا اور ان کی تکمیل کی جستجو کرنا  ۔۔۔ یہ ہمارا طرہ امتیاز ہے۔
خلا کو آخری سرحد کہا جاتا ہے۔ کیا یہ ہماری ذہنی اور جغرافیائی قید کی ہتھکڑیاں توڑ سکتی ہے؟ کیا ہم ستاروں پر کمند ڈال سکتے ہیں؟
آسمان ہمارے لئے حد نہیں ہے۔


ختم شد








1 تبصرہ:

  1. یہ ایک بہت ہی معلوماتی اور دلچسپ سیرز تھی ۔ جس میں انسانی تاریخ کی ابتدا سے انتہا تک روشناس کروایا گیا ہے ۔ اور کچھ امکانات پر بھی بات کی گئی ہے جو مستقبل قریب یا بعید تر میں پیش آسکتے ہیں ۔ اردو ادب میں ایسا لٹریچر بہت کم ہے جو جدید ادوار سے ہم آہنگ ہو ۔ وہارا امباکر سر نے بڑی حد تک اس کمی کو پورا کرنے کے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ دعا ہے یہ سلامت رہیں اور اسی طرح علیم کی روشنیاں بکھیرتے رہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں